لسبیلہ یونیورسٹی طلباء کیلئے درسگاہ یا ایڈمنسٹریشن کی جاگیر

تحریر: سجاد بلوچ

اگر دیکھا جائے تو ہر تعلیمی ادارہ طلباء و طالبات کیلئے ایک درسگاہ کی مانند ہوتا ہے۔ مگر لسبیلہ یونیورسٹی کو اگر ہم درسگاہ کے بجائے طلباء کیلئے اذیت گاہ یا ٹارچرسِل یا پھر ایک قید خانہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

کیونکہ آئے روز یہاں ایڈمن کی طرف سے مسئلے پیدا کیئے جاتے ہیں اور سٹوڈنٹس کو انہی مسئلوں میں الجانے کی کوشش ہوتی ہے۔ کبھی ہاسٹلز میں پانی کا مسئلہ تو کبھی سنٹرل لائبریری میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تو کبھی معمول سے زیادہ اسائنمنٹ، ڈاکٹسٹ وغیرہ دیئے جاتے ہیں تاکہ سٹوڈنٹس پولیٹیکل ورک سے دور رہیں۔ حتیٰ کہ اساتذہ بھی طلباء کو ذہنی طور پر دبائے رکھتے ہیں۔

اگر کوئی سٹوڈنٹ اس جبر کے خلاف آواز اٹھائے تو یونیورسٹی اساتذہ اسکی آواز کو دبانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اُس سٹوڈنٹ کو یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر تم نے اس سسٹم کے خلاف کوئی بھی سوال اٹھایا تو آپکے پیپرز اور ٹیچر مارکس ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ تو اس صورت میں طلباء کرے بھی تو کیا کرے

چند روز پہلے ڈی وی ایم فیکلٹی کے طلباء نے ہمت کرکے اپنے سر پر کفن باندھ کر اس مرکزی طاقت (ایڈمنسٹریشن) کے انہی رویوں کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا جو ایک ہفتے تک جاری رہا مگر اسی دوران ایڈمنسٹریشن نے انکی پر امن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہر قسم کے گھنونا حرکت کیا۔

ایڈمن نے ان پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج بھی کروایا۔ مگر سٹوڈنٹس اپنے قول پے ڈٹے رہے کہ جب تک مطالبات منظور نہیں کئے جائینگے تب تک ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔

اور اس صورت میں نااہل انتظامیہ نے سٹوڈنٹس کی بہادری دیکھ کر اُنکے من میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں طلباء ہمارے جاگیردارنہ طرز پہ قائم نظام کو ختم نا کر دیں۔ اور انہوں نے سٹوڈنٹس کو ذہنی طور پر بلیک میل کرنے کی بھی کوششیں شروع کیئے۔

ہر ایک سٹوڈنٹس کے گھروں پے کال کرکے دھمکی دیکر یہ کہا گیا تھا کہ اگر آپکا بیٹا اس ایڈمنسٹریشن کے خلاف بات کریگا تو وہ اپنا زمہ دار خود ہوگا۔
اور فیمیل سٹوڈنٹس کو بھی پروٹیسٹ اٹینڈ کرنے کیلئے ایڈمن نے وارڑن کے روپ میں انکو ہاسٹلز سے باہر نکلنے سے روکا تھا اور جو فیمیل ہاسٹلز سے کسی طریقے سے نکل بھی جاتی تھیں تو انکو یہی کہا جاتا تھا کے تم اپنے عزت کی زمہ دار خود ہو یا کسی اور طریقے سے انکو ٹارچر کیا جاتا تھا تاکہ وہ پروٹیسٹ سے دور رہیں
مگر طلباء و طالبات نے دلیری و بہادری سے اپنے مشن کو آخری منزل تک پہنچایا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لسبیلہ یونیورسٹی کے انتظامیہ نے اس یونیورسٹی کو اپنا کالونی بنایا ہے یہاں انہوں نے اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ نا کسی کو سوال کرنے دیں گے اور نا ہی خود اس سسٹم کو بہتر بناتے ہیں۔
اب اس غلامی جیسی صورت میں یہاں سے قابل سٹوڈنٹس کم اور ذہنی مریض زیادہ فارغ ہونگے۔

اگر کوئی ایڈمنسٹریشن کی کالونیل سسٹم سے صحیح سلامت بچ بھی نکلے، تو وہ کل اپنے جاگیردار اساتذہ کی جاگیرداری عمل کو دہرائے گا اور اس بنیاد پر ہمارے معاشرے میں لیڈر کم اور جاگیردار زیادہ پیدا ہونگے۔

میں آخر میں صرف یہی کہونگا کہ خدارا اس عظیم درسگاہ کو سٹوڈنٹس کیلئے جہنم نا بنائیں۔ شکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.