شہید رامِز بلوچ اور خریدی گٸی گولی

تحریر: فرید مینگل

بلوچستان ایک ایسا دوزخ ہے جس کی آگ کے بڑھکتے رہنے کےلیے شرط اوّل یہی ہے کہ اس میں اس کے اپنے بچے جلتے رہیں۔ بلوچستان پر مسلط حاکم اس آگ میں مسلسل ہمیں جھونکتا رہتا ہے اور ہم جلتے رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ مسلط حاکم کے وجود تک چلتا رہے گا، ہم جلتے رہیں گے مسلط حاکم ہمیں جلاتا رہے گا۔

8 جولاٸی 2021 کو جب میرے بیٹے ذولقر مینگل کی وِلادت ہوٸی تو میں نے سوچا باپ ہونے کے ناطے میری خوشیاں اپنی جگہ لیکن بلوچ دھرتی کا فرزند ہونے کے ناطے مجھے احساس ہونا چاہیے کہ میرے گھر میں ایک اور غلام کا جنم ہوا ہے۔ لِہٰذا میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اپنے بیٹے کا اعلان نہیں کرونگا۔ بلکہ میرے بیٹے کی پرورش ایسی ہوگی کہ اسے دھرتی ماتا خود اپنا رنگ اور ظالم کی جبر و بربریت اسے شعور دے کر اسے اس کی قومی ذمہ داری کا احساس بخش کر خود اس سے دھرتی کا ایک ذمہ دار و جہد کار فرزند ہونے کا اعلان کرواٸے گا۔

لیکن آج رامِز بلوچ کے قتل نے مجھے ایک بار پھر احساس دلایا کہ نہ جانے ذلقر مینگل رامز رند جتنا ہو بھی پاٸے گا کہ نہیں۔ کیا اسے گھر میں وہ شعوری پرورش مل پاٸے گی جو رامز کو گھر میں ملا۔ کیا وہ بچ کر اتنا بڑا ہو پاٸے گا کہ رامز بلوچ کی طرح حاکم اور اس کی بربریت کو جان لے اور اس کے خلاف مزاحمتی عمل میں رامیز کی طرح شریک ہو سکے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے پیدا ہوتے ہی ہمارے ہی سیندک و سوٸی کو لوٹنے والے حاکم ہمارے ہی ساحل و وساٸل کے رقم سے ہمارے بچوں کےلیے ایک گولی خرید لیتے ہیں اور ظالم کے خلاف مزاحمت کرنے پر وہ گولی ان کے سینے میں پیوست کردی جاتی ہے۔

آج میں ظالم کی خریدی ہوٸی گولی کا احساس کرکے کہتا ہوں کہ میرا بچہ ذولقر بھی جب ھوش سنبھالے گا تو وہ ایسے ہی رامز کی طرح ظالم کا مخالف ہوگا، بی ایس او کا ایک جہد کار ہوگا، جو وطن بلوچستان پر جاری حاکم کے ظلم و بربریت کی مخالفت کرے گا، مزاحمت کرے گا۔ جب مزاحمت کرے گا تو درندہ صفت یہ لشکر اس کے ساتھ بھی وہی کرے گا جو آج رامز کے ساتھ ہوا۔

تو میرے لخت جگر، یہ تمہاری دھرتی ہے۔ یہاں روز لاش گرتی ہے۔ کل کریمہ کی لاش گری تھی، آج رامز کی گری ہے، اور کل تمہارے کسی اور سنگت بشمول والد کی لاش گر سکتی ہے۔ تم ڈرنا نہیں، خوفزدہ نہیں ہونا، مزاحمت ترک نہیں کرنا، رامز کا رستہ نہیں چھوڑنا کہ یہی حق کا راستہ ہے، یہی سچ کا راستہ ہے، یہی کریمہ، ھانی، ہمید و فدا کا راستہ ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ یہی نجات کا راستہ ہے اور تمہیں اسی راہ سے گزرنا ہے۔ تمہیں اسی مزاحمتی کارروان کا حصہ بننا ہے، تمہارے لیے میرا یہی خواب ہے اور اس خواب کو تم نے پورا کرنا ہے۔ جہد جاری رکھنا ہے، غاصب کو غاصب کہنا ہے، نہ صرف غاصب کہنا ہے بلکہ اس کے سامنے مزاحمتی بند باندھنا ہے۔ اپنے لیے خریدی گٸی غاصب کی گولی کو نہیں بھولنا ہے۔ اس کےلیے ہمیشہ اپنا سینہ چوڑا کرکے دماغ انقلابی نظریات و افکار سے روشن رکھنا ہے۔

اس راہ میں تمہیں طرح طرح کی مصیبتیں جھیلنی ہونگی، تمہارے اپنے تمہیں غدار کہیں گے، نادان تمہیں ایجنٹ کہیں گے، لیکن تم وطن وطن کرتے رہنا، تم رامِز کا ساتھی و پیروکار بننا، تم فکر حمید و فکر فدا کا پیامبر بننا۔ وطن وطن کرتے رہنا جب تک تمہارے سینے میں رامز بلوچ کی طرح کوٸی قاتل وہ خریدی گٸی گولی پیوست کرکے تمہیں ہمیشہ کےلیے خاموش نہ کر دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.