تعلیم، محکوم کا ہتھیار

تحریر: محمّدبخش شاہوانی

اس جدید تکنیکی دور میں دنیا میں ایک طرف ترقی و خوشحالی ہے تو دوسری جانب بھوک، افلاس کے مارے نڈھال لوگ جو دو وقت کی روٹی کے لیے در بدر بھٹکے رہتے ہیں غربت کے مارے یہ لوگ اپنی ساری زندگی محنت مزدوری میں صرف کرتے ہیں مگر آج جس قدر سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش مزدور بزگر شوان کا استحصال ہورہا ہے اس کی مثال شاید کہیں اور نظر نہیں آتی ، یہی ظلم وجبر بلوچستان کے باسیوں پر بھی ہورہا ہے، دہائیوں سے بلوچ سرزمین پر بیرونی سامراجی یلغار سے لے کر اندرونی قبائلی و جاگیرداری نفسیات نے اس تمام تر خطے کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔

بلوچستان وہ سرزمین ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے، معدنیات کے ذخائر تیل، گیس، تانبا، کوئلہ، سونا یورونیم، ماربل اور سی پیک کا منصوبہ یہ سب کچھ بلوچستان میں ہی ہیں، معدنیاتی دولت سے مالامال ہے یہ خطہ، مگر اس دولت کے باوجود یہاں کے لوگ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ غربت اور پسماندگی میں دھنس گئے ہیں، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل کے اعتبار سے بلوچستان دنیا کے بارہ قیمتی خطوں میں شمار ہوتا ہے۔

چونکہ طاقتور قوتوں اور ان کے در پردہ حمایتیوں کا یہ لوٹ کھسوٹ دہائیوں سے جاری وساری ہے اس خطے میں اسی وجہ سے آج پاکستان کے بیشتر شعبوں میں بلوچستان کو نظر انداز کیا جارہا ہے تاکہ اس سرزمین کے باسی مزید تباہ و برباد رہیں اور اپنے سرزمین کی حفاظت نہ کرسکے، اس سے بھی بڑھ کر بلوچستان کے عوام کو زندگی کے دیگر بنيادی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے اور یہ سلسلہ آج تک بھی اسی طرح جاری وساری ہے آج بھی حاکمِ وقت بلوچستان میں ظلم و جبر کر رہا ہے، مگر یہ ان سفاک و بے رحم حاکموں کی بھول ہے وہ یہ بات جان لیں کہ محکوم لوگوں پر ظلم جتنی شدت اختیار کریگی اتنی ہی اس ظلم کے خلاف بغاوتیں تیزی سے جنم لیں گے۔

بلوچستان کے ان تمام تر پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ فرسودہ نظام ہے، اس چند سری نظام نے سیاست کو براۓ مفاد اور چند خاندانوں کی میراث بنا کر رکھ دیا ہے ۔ بیرونی طاقتوں سے لے کر اندرونی سرداروں اور نوابوں نے بلوچستان کے باسیوں کو ذہنی غلام بنایا ہے اور وسائل کی لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے ۔ بلوچستان کے قومی پولیٹیکل پارٹیوں میں سے جو بھی اقتدار میں آئی ہے اس نے سامراجی طاقتوں کو بلوچستان کے تمام تر وسائل کو لوٹنے میں بے حد مدد کی ہے اور بلوچستان کے سائل و ساحل کو بھی انہی نام نہاد پولیٹیکل پارٹیوں نے ہی ھڑپ لیا ہے، اور اب بھی یہ سفاک جماعتیں سامراجی طاقتوں کے ساتھ مل کر دونوں ہاتھوں سے بلوچستان کے قدرتی معدنیات کو لوٹ رہے ہیں ۔

یہ ایک المیے سے کم نہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ آخر ایسا کیوں ہے؟

اگر بلوچستان کے چند علاقوں کی بات کی جائے تو ان علاقوں میں باقی سہولیات کی عدم موجودگی کی طرح تعلیمی نظام بھی کافی تباہ و برباد ہے وہاں کے باسیوں کو تعلیم جیسے زیور سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ نواب و سردار اور وڈیرے کے بچے مختلف اعلٰی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنے مقامی لوگوں کے لیے جو علاقائی سطح پر اسکولز اور کالجز بنائے ہوئے ہیں وہاں پر کوٸی بھی تعلیمی سہولیات نہیں، کیونکہ ان اداروں کو یہی وڈیرے اور جاگیردار اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں ایک بھی ایسا علاقہ نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ اچھی زندگی گزار رہے ہوں۔ مگر ساراوان و جھلاوان بیلٹ میں سرداری و جاگیرداری نفسیات نے اپنی جڑیں بے حد مضبوط کیے ہیں اسی فرسودہ قبائلی و جاگیرداری نفسیات کے باعث یہاں کے مقامی باشندے انتہائی نامناسب اور سخت حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ان علاقوں میں قبائلی طرز حکمرانی اور سردار، وڈیرے غریبوں کا خون چوسنے میں کوٸی کسر باقی نہیں رہنے دیتے ۔غریب کی رزق کو مال غنیمت سمجھتے ہیں ۔

بلوچستان کی ترقی، تعلیم، صحت اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں بیرونی طاقتوں سے لے کر بلوچستان کے اندرونی سردار، میر و معتبریں اس کے خلاف ہیں کیونکہ شعوری تعلیم سے ان سفاک و بے رحم حاکموں کی گدِی ہل جاتی ہے۔

یہی ہیں وہ ظالم ریاستی کٹھ پتلی سردار جو ریاستی اداروں کے ایماء پر بلوچ سرزمین کے حقیقی وارثوں پر دہائیوں سے حکومت کرتے چلے آرہے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ یہ ظالم و بے رحم سردار اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوام سے ووٹ لیتے ہیں، اور مقامی سرداروں اور حکومت کی معاشی انقلاب کے حامیوں کے درمیان ایک جنگ جاری رہتی ہے جس کے کارن لور کلاس کے لوگ کھسک کر مر رہے ہیں۔

آج اس جدید دور میں بھی بلوچستان کئی مسائل اور محروموں کا مسکن ہے ۔بلوچستان کے بیشتر عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔بلوچستان کے باسی محنتی اور بہادر ہیں مگر انہی کٹ پتلی سرداروں نے یہاں کے لوگوں کو پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔

اس تباہی و بربادی سے نکلنے کا واحد حل تعلیم کے میدان میں ترقی ہے ۔بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی ایک بہت بڑا سنگین مسلہ ہے ۔ ہمیشہ سے بلوچستان کے تعلیمی نظام کو پسماندہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہیں ، بلوچستان کو باقی تین صوبوں سے سب سے زیادہ محروم رکھا گیا ہے

بلوچستان میں ان تمام تر فرسودہ قبائلی و جاگیرداری نفسیات کا خاتمہ شعوری تعلیم کو گھر گھر تک پہنچاٸے بغیر ممكن نہیں ہے، بلوچستان کے بہادر باسی اپنے بچوں کو تعلیم دینے کیلئے اپنا اہم کردار ادا کریں اور ان میں شعور اجاگر کریں شعوری تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے زندگیوں میں تبدیلی لاٸی جاسکتی ہے۔ دُنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقّی و تبدیلی کی منازل طے کئے ہیں جنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو عہدِ حاضر کی تمام تر ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا ہے. شعوری تعلیم اور ہنرمندی کا راستہ ہی آنے والی نسلوں کو خوشحالی کی منزل تک پہنچائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.