درندگی

تحریر : لالاماجد

رات کی ہلکی بارش نے سردی میں اضافہ کر دیا تھا۔ آسمان کالے چادر اوڑھے لوگوں کو ہوشیار کر رہا تھا۔ لوگ اپنے گھروں کی طرف جانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

استاد مہرو بازار سے کچھ لکڑیاں اور چھ سالہ بیٹی اقصیٰ کیلئے کچھ کھانے کی چیزیں لے کر گھر کی طرف آ ہی رہا تھا کہ ایک زوردار آواز نے پورے علاقے میں اپنی گونج پیدا کر دی۔ استاد کو گھر پہنچتے پہنچتے کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جس میں وہ اور اس کے ساتھ جو لکڑیاں اور چیزیں تھے مکمل بیگ چکے تھے۔ بارش جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور پتہ چلا کے وہ آواز ایک بجلی گرنے کی تھی جو کچھ دور ہی گری تھی۔

اقصیٰ کو آج محلے کی بچیوں کے ساتھ مسجد میں پڑھنے کیلئے جانا تھا لیکن یہ آج ممکن نہیں ہوسکا۔
استاد مہرو ،اقصی اور اقصی کی اماں باورچی خانے میں کچھ خشک لکڑیاں جلانے میں مصروف تھے تاکہ باورچی خانے کو گرم رکھا جا سکے۔ لگاتار چار گھنٹے بارش کے بعد جب مہرو نے باہر کا منظر دیکھا تو وہ منظر صرف دیکھا جا سکتا تھا اور سرد ہواؤں نے استاد کو واپس باورچی خانے میں جانے پر مجبور کر دیا۔

اگلے دن اقصٰی نے ان بچیوں کے ساتھ مدرسہ جانا شروع کیا۔ اقصٰی اکثر اپنی ماں کو سبق سنایا کرتی اور ماں اس کی بہت تعریف کرتی جس سے اقصیٰ بہت خوش ہو جاتی مدرسے میں جو کچھ بھی ہوتا اقصی خود اپنی ماں کو سب بتا دیتی۔

استاد مہرو کا خیال تھا کہ اقصٰی کو اب اسکول بھی جانا چاہیئے لیکن بیگم کی طرف سے اسے منع کر دیا گیا اور آگے جا کے اسکول کے بارے میں بھی سوچا جائے گا بیگم کی طرف سے مہرو کو یہ جواب ملا جس پر مہرو نے بھی اتفاق کیا۔ ایک صبح استاد اپنی شال اوڈھ کر باہر کچھ کام سے گیا۔ اقصٰی کی ماں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوئی۔ گھر کے کام ختم کرنے کے بعد اقصٰی کو بھی تیار کیا آج ماں نے خود اقصٰی کو مدرسہ پہنچایا۔

کچھ دیر بعد ماں نے محسوس کیا کہ اقصیٰ گھر آنے میں لیٹ کر رہی ہے اتنے میں استاد مہرو بھی پہنچے اور بیگم نے بتایا کہ اقصٰی ابھی تک گھر نہیں آئی ہے۔ پریشانی کے عالم میں استاد مدرسہ گیا مگر وہاں سے وہ نہیں ملی نہ ہی وہ علاقے سے ملی۔ استاد مہرو اور بیگم غم سے نڈھال تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر صرف رو ہی سکتے تھے۔

ایک دن کچھ ہمسائے ان کے گھر آئے جن میں اقصیٰ کی سہیلی بھی تھی وہ اقصٰی سے دو سال بڑی تھی۔

اس نے اپنی ماں کو بتایا تھا جو مدرسے میں ہمیں پڑھاتے ہیں اس کا رویہ لڑکیوں اور چھوٹی بچیوں کے ساتھ کچھ ٹھیک نہیں ہوتا۔ وہ ہمیں الگ پڑھانے کا بہانہ بنا کر ہم سے ایسے سلوک کرتے ہیں جو ایک استاد محترم کا پیشہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ کچھ اور لڑکیوں کو بھی یہی سرگوشی کرتے سنا گیا اقصٰی کی ماں کے پاس صرف ایک ہی حل تھا کہ مہرو سے اس بات کا ذکر کرے۔

استاد مہرو اقصٰی کیلئے کھبی فلاں سردار تو کھبی فلاں سردار کے دربار میں حاضری دیتا اور بھیک مانگتا کہ خدا کیلئے ہماری مدد کرے مگر استاد کو صرف دلاسے ہی ملتے اور آگے کی زندگی پر غور کرنے کے مشورے ملتے۔

ایک دن ایک اور بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا تو علاقے میں یہ دوسرا واقعہ ہونے کی وجہ سے علاقے والوں نے اپنی مدد آپ مولوی سے ملنے اور تفتیش کرنے کا اظہار ظاہر کیا لیکن اس ظالم کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ لیکن کچھ دن کے بعد مدرسے کے قریب اسی علم پھیلانے والے کے گھر سے اقصٰی ایک نہ دیکھنے والی حال میں مل جاتی ہیں۔

استاد مہرو اور اقصٰی کی اماں کی حالت پورے محلے والے دیکھ سکتے تھے اور استاد مہرو آسمان کو دیکھتا اور سوال کرتا لوگ سمجھ چکے تھے کہ استاد کو اقصٰی کی موت سے بہت گہرا صدمہ پہنچھا ہے۔

وہ سوال کرتا کہ میرے خدا آخر انسان کس جگہ ان ظالموں سے محفوظ ہے جہاں ان کو بر وقت ایک عذاب نازل ہو۔ دنیا نہ استاد کیلئے اہم تھی نہ ہی اقصٰی کی ماں کیلئے دونوں خدا سے انصاف کے طلبگار تھے اور اس انتظار میں قیامت کا بھی انتظار کرنے لگے کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ دنیا میں انصاف نہیں ہوتا۔

ایک سماج کو خوشحال اور خوف سے نجات دلانے کیلئے بےحد ضروری ہے کہ ایسے درندوں کو عبرتناک سزا دی جائے ناکہ ان کی پشت پناہی کر کے ان کو اور لگام دی جائے یہی حال آج ہمارے ملک کا بھی ہے۔

جس ملک کو صرف ریاست مدینہ کے مونوگرام سے نوازہ گیا مگر یہی ریاست مدینہ میں آج نہ مائیں محفوظ ہے نہ بہنیں اور نہ ہی شیر خوار بچیاں۔

یہی وہ ریاست مدینہ ہے جہاں کہ نہ مسجد محفوظ ہیں نہ دنیاوی تعلیم کے مراکز نہ صحت کے مراکز اور نہ ہی دوسرے ادارے جہاں ہر دوسرے دن ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے اور گزرے ہوئے واقعہ کو رفع دفع کر کے کچھ امداد دے کر سب اوپر والے کا منشا تھا ایسا کہھ کر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

لگام چھوڑ دو گے تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوگا جب تعداد میں اضافہ ہوگا تو آج میرا گھر جلا ہے,مگر کل کا دن آپ کا ہوگا آج کسی غریب کا گھر جلا اور آپ خرگوش کی نیند سو گئے مگر کل آپ کا گھرہوگا اور وہ درندہ آپ کے مقابلے کا ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.