بی ایس او خضدار زون کی جانب سے ایک روزہ ریجنل اسکول منعقد کیا گیا

رپورٹ : پریس سیکریٹری خضدار زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن خضدار زون کا ریجنل اسکول زیر صدارت زونل صدر سنگت آصف بلوچ منعقد ہوا جب کہ اسٹیج سیکریٹری کے فرائز سنگت ناصر عفان نے سرانجام دیے۔ پروگرام آغاز راجی سوت و شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اور انقلابی اشعار سے ہوا۔

ریجنل اسکول میں ساتھیوں نے عالمی و علاقائی سیاسی تناظر، تنظیم ، بلوچ قومی سوال ، پولیٹیکل اکانومی، اور جدلیاتی مادیت کے موضوعات رکھے۔

عالمی و علاقاٸی صورتحال کے موضوع پر ساتھیوں نے کہا کہ آج بین الاقوامی سیاسی منظرنامہ میں بڑی اونچ نیچ دکھائی دے رہی ہے ایک طرف تہذیب و آزادی کی نام نہاد علمبردار سامراجی قوتوں کے اندر سے تضادات ابھر رہے ہیں اور عوامی شعور بیدار ہو رہا ہے تو دوسری جانب اُن کے ایوانوں میں بھی بدنظمی کا سماں ہے اُن میں وزارتیں سنبھالنے پہ تشویش و گہما گہمی بھی نظر آرہی ہے۔ سامراجی کھلاڑی برطانوی حکومت مسلسل انہی مسائل کا شکار ہے جس کے لبرل ذمہ دار اپنی شرمناک صورت عوام کو دکھانے سے شش و پنج میں مبتلا ہیں۔ موجودہ سرمایہ دارانہ کرپٹ و منافق طبقہ برازیل میں کامریڈ لولا ڈی سلوا کے ساتھ عوامی حمایت دیکھ کر پاؤں تلے زمین سرکنا محسوس کررہا ہے اور انقلابی فکر کے خلاف مختلف حربے استعمال کرنا چاہتا ہے ایسی صورتحال میں روس اور ایران کا اندرونی و بیرونی طور پر عسکری طاقت کا استعمال اُن کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوامی نفرت کا سبب بن رہا ہے کیونکہ بحرانات کی دراڑیں بڑھتی جارہی ہیں یہی کیفیت پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی عوامی سطح پر پنپ رہی ہے، جسے اب مذہبی و سیاسی پردے میں چُھپانا ممکن نہیں رہا ایران، افغانستان اور بلوچستان کے بنیاد پرست مذہبی حلقے سیکولر روایات کا ابھار دیکھ کر چیخیں مار رہے ہیں اور خود کو منوانے کی خاطر تشدد و طاقت سے کام لے رہے ہیں ایرانی فاشسٹ خمینی حکومت حجاب کی لازمیت پر کھڑی ہے اور طالبان بھی عورت کی سماجی آزادی پر قدغن لگا کر اپنے پرانے ہتھکنڈے استعمال کرنا چاہتا ہے جن کو اب سوات سے لےکر کابل تک شدید عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بلوچستان میں جاری بلوچ قومی تحریک کے خلاف ریاستی ایما پر مذہبی شدت پسندی کو آکسیجن دی جارہی ہے مکران میں مسلسل لڑکیوں کے اسکولوں کو نذرِ آتش کرنا، تبلیغی اجتماعات کا دائرہ وسیع کرنا اور سیاسی میدان میں شدت پسند مذہبی جماعتوں کو لانا بلوچ نوجوانوں کے انقلابی اور قوم دوست فکر کے خلاف منصوبے ہیں جو بلوچ سماج کی ثقافت، زبان، روایات اور انقلابی تعلیم کو مسخ کرنے اور قومی تحریک کے سیکولر مؤقف کے خلاف حربے ہیں۔

بلوچستان دہائیوں سے ریاستی فوجی آپریشنوں، ڈیتھ اسکواڈ کے قتلِ عام اور “مارو اور پھینکو” جیسے انسان دشمن پالیسیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ موجودہ خونی آپریشنوں میں بچے، بوڑھے خواتین اور مرد سب نشانہ بنایا جارہا ہے، اُن کے خاندانوں کو اتنا مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جوکہ ریاستی مظالم کی انتہا ہے۔

تنظیم کے موضوع پر ساتھیوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کسی بھی سماجی مسئلے کے حل کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تنظیم سماجی معاملات کو یکجا کرکے سیاسی شکل دے سکتی ہے محکوم قوموں اور طبقوں کےلیے انقلابی و ترقی پسند تنظیم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

بی ایس او بھی بطورِ تنظیم سامراج و قبضہ گیر مخالف تنظیم ہے جس نے سرمایہ دارانہ نظام و بلوچ قومی محکومی کے خلاف قوم کو منظم کرنا اپنا فریضہ سمجھا ہے اور آج بھی اس انقلابی جدوجہد کا عمل جارہی ہے۔

بلوچ قومی سوال کے عنوان پر کامریڈز نے کہا کہ بلوچستان جو کہ بلوچ قوم کا وطن ہے جو صدیوں سے اپنی قدیم تاریخ کے ساتھ بلوچستان میں آباد ہے۔ برطانوی سامراج نے بلوچ وطن کو اپنے سامراجی مفادات کے لیے کئی ٹکڑوں میں تقسیم کیا افغانستان، ایران، سندھ، پنجاب تک بھی بلوچ وطن کو بانٹا گیا تاکہ وہ بلوچ قوم کی طاقت و منظم قوت کو منتشر کرنے میں کامیاب ہو اور اپنی لوٹ مار و قبضہ گیری کو دوام بخشنے کےلیے آسانی پیدا کرسکے۔ اُس کے بعد سے بلوچ قومی سوال اہمیت کا حامل ہوتا جارہا ہے کیونکہ بلوچ قوم کی آزادانہ حیثیت کو ریاستی اداروں نے تاریکیوں کا میلہ بنایا ہے قومی سوال کے جواب کےلیے اندرونی قبائلی تفرقات کے بجائے عوامی سیاسی اتحاد بنانے کی ضرورت ہے اور قومی سوال کو اجاگر کرنے بلوچ سماج میں انقلابی نظریہ کی تعلیم ضروری ہے جس کے بغیر مکمل سیاسی و نظریاتی اتحاد نہیں بن سکتا جس سے مفاد پرست طبقات فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قومی سوال کا حل انقلابی اصولوں کے تحت ” قومی حق خودارادیت” سے مشروط ہے۔

پولیٹیکل اکانومی کو بیان کرتے ہوئے ساتھیوں نے کہا کہ انسانی سماج معیشت اور سیاست کی جڑت سے قدیم تاریخ سے موجودہ عہد تک سائنسی بنیادوں پر کچھ ادوار میں تقسیم ہے انسانی سماج آلات پیداوار و موڈ آف پروڈکشن سے مسلسل تبدیلی کے مراحل سے گزرتا آرہا ہے
ابتدائی سماج میں پیداواری آلات کے سادہ ہونے سے انسان کو بےشمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
جوں یہ ابتدائی سماج سفر کرتا گیا تو انسانی قوت محنت کی وجہ سے آلات پیداوار میں ترقی ہوتی گئی اور کچھ طبقے انسانی بنیادی ضروریات سے زیادہ استعمالی اشیا جمع کرتے گئے جن سے انسانی سماج ابتدائی مرحلوں سے گزر کر غلام داری سماج میں داخل ہوا
غلام داری سماج میں غلاموں کی قوت محنت کا استحصال کیا جاتا ہے اور مزید سرمایہ بنایا جاتا ہے اس سماج میں استحصالی طبقوں نے ذرائع پیداوار، آلات پیداوار یہاں تک کہ انسان کو بھی اپنی ذاتی ملکیت بنا چکے تھے۔

یہی وہ سلسلہ تھا جس سے جاگیرداری سماج نے جنم لیا جاگیردارانہ نظام میں انسان کو غلام اور کسان بنا کر اُن سے زراعت کےلیے کام لیا گیا اور بےپناہ لوٹ کھسوٹ کے سرمائے کی شکل میں سرمایہ داری نظام کا ظہور ہوا جہاں صنعتی مالکان مزدور کا استحصال کرنا شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ جاگیرداری نظام کی باقیات کو سرمایہ داری نظام بگاڑ رہا ہے جس سے مارکیٹ، انفراسٹرکچر اور مواصلاتی ذرائع تبدیل ہورہے ہیں اور شہر گنجان ہوتے جارہے ہیں لیکن آج بھی انسانوں کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہے اور مٹھی بھر سرمایہ دار ان گنت دولت کے مالک بنے بیٹھے سیاست، معیشت، قانون و تعلیم پر اپنے فیصلے صادر کررہے ہیں اور بھرپور طاقت استعمال کرواکے انسانوں کا ناحق خون بہانے پر ذرا بھی ان کا ضمیر نہیں جاگتا جوکہ اِس بےحس نظام کی سب سے بڑی انسان دشمن حرکت ہے جس کا انجام انقلابی جدوجہد کے ذریعے اشتراکی دنیا کی تشکیل سے ممکن ہوگا۔

جدلیاتی مادیت کے موضوع پر دوستوں نے کہا کہ فلسفہ چیزوں کی عقلی دریافت کی جدوجہد ہے جدلیاتی مادیت بھی فلسفیانہ موضوع ہے جو لفظ “جدل” بمعنی، تصادم اور مادیت (مادے کی فوقیت) پر منحصر ہے جو کائنات کے تبدیلی کے مادی اصول، ان کے مابین ٹکراؤ اور انسانی عمل پر بحث کرتی ہے جو انسانی سوچ، سماج اور فطرت میں جاری جدلیات کو تھیسس، اینٹی تھیسس اور سنتھیسس کی بنیاد پر پرکھتی ہے تھیسس میں پہلا دعوی یا واقعہ آتا ہے اینٹی تھیسس میں پہلے دعویٰ یا واقعہ کو اس کے مخالف سے جدل کرنا پڑتا ہے جس سے تیسرے درجے میں تیھسس نکلتا ہے پھر اِسی تھیسس کو دوسرا اینٹی تھیسس گھیر لیتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جدلیات کا یہ پورا نظام مادے کی کُلیت میں جاری و ساری ہے تھیسس اور اینٹی تھیسس مخاصمت میں رہتے ہوئے بھی وحدت میں ہوتے ہیں۔

جدلیاتی مادیت نہ صرف خیال پرستی (آئیڈلزم) کے غیر مادی مقدمات کے الٹ ہے بلکہ قدیم مادیت پسندی سے بھی مختلف ہے جس میں انسانی فکر معمولی کردار کے ساتھ رہتی اور مادہ اس پر اثرانداز ہوتا رہتا لیکن انقلابی فلسفہ جدلیاتی مادیت نے انسانی عمل کو مقدم مان کر اُس کی سوچ کی تشکیل اور اس کی فعلیت سے فطرت کو تبدیل کرنے کا راز کھول کے انسان کو ایک فاعلی و متحرک وجود کے طور پر پیش کیا جس کو انقلابی تحریکیں عملی میدان میں ثابت کرتی آرہی ہیں۔

پروگرام کو اختتام کی جانب بڑھاتے ہوئے شاعری کا سیشن رکھا گیا جس میں ساتھیوں نے انقلابی اشعار سے پروگرام (ریجنل اسکول) کا اختتام کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.