بک ریویو: بلوچ ریاست کی تشکیل

کتاب :بلوچ ریاست کی تشکیل
مصنف :ڈاکٹر شاہ محمد مری
ریویو : جلال جورکؔ

ڈاکٹر شاہ محمد کی کتاب بلوچ ریاست کی تشکیل میں بلوچستان میں بیرونی حملہ آوروں سے لے کر جدید قومی ریاست کی تشکیل تک کے تمام مراحل کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس کتاب کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ان تمام بیرونی حملہ آوروں کو مرحملہ وار اور ترتیب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جن کا براہِ راست بلوچستان و بلوچ عوام کی زندگیوں پر اثرات مرتب ہوئے۔ یقیناً ان تمام مراحل کو تفصیلاً بیان کرنا ایک بڑی کاوش ہے جو کہ بڑے تحقیق کے بعد ہی ممکن تھا اور ڈاکٹر مری کا یہ عمل خصوصاً بلوچ قوم کے لیے عظیم کارنامہ ہے۔

اس کتاب کی ابتداء ایک ہزار سال قبل مسیح کے ان حملہ آوروں سے کیا گیا ہے جنہوں نے رفتہ رفتہ بلوچستان پر حملہ کیا اور ان میں سے کچھ نے یہاں سے شکست کھا کر واپس اپنی سلطنتوں کا رخ کیا اور کچھ نے قبضہ گیریت جما کر بلوچستان کو اپنی کالونی بنائی۔ مصنف کہتا ہے کہ آج سے ایک ہزار قبل مسیح ایران پر مادوں کی حکمرانی تھی انہوں نے فارس پر چڑھاٸی کر کے ان کی سلطنت بکھیر دی اور اسی وقت کرد بلوچ شورا کی پرستش کررہے تھے۔

چنانچہ چھ سو قبل مسیح میں بقولِ مٶرخ فاتح سائرس اپنی بڑی فوج کے ساتھ حملہ کرتے ہوئے بلوچستان کی سرزمین پر اپنی جڑیں قائم کرنی کی کوشش کرتا رہا مگر اس کی فوج کو بلوچوں نے برباد کردیا اور وہ یہاں کی سرزمین چھوڑ کر بھاگ نکلا اور آگے چل کر کسی لڑائی میں مارا گیا اور کہتے ہیں کہ جب وہ قتل ہوا تو اس کے سر (کھوپڑی) کو خون سے بھرے تھیلے میں ڈال دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اب جتنا خون پینا ہے پیو ۔

اس کے علاوہ بیرونی طاقتوں کی ایک لمبی لسٹ موجود ہے جنہوں نے طاقت کے نشے میں اپنی قبضہ گیریت کو مزید توانائی دینے کے لیے بلوچ کی سرزمین کو قبضہ کرنا چاہا جن میں یونان کے سکندر اعظم کا نام بھی سر فہرست ہے کہ جنہوں نے دریائے سندھ سے بلوچستان پر لشکر کشی کی اور ایران جاکر مرگئے اور اس کے بعد کے زمانے کو اگر مطالعہ کیا جائے تو بھی بیرونی قوتوں کی قبضہ گیریت کو ختم کرنے کے لیے مزدک کی قیادت میں بلوچوں نے ایک واضح تحریک چلائی جس کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش میں ہزاروں بلوچوں کی خون سے نوشیروان نے اپنی تلواروں کو رنگیں کیا۔ اور اس کے علاوہ چھٹی صدی عیسوی میں خلیفہ دوئم عمر کے وقت عرب لشکر نے اپنی معیشت کو قوت بخشنے کی خاطر اس سرزمین کو قبضہ کرنے کی کوشش کی اور آخر کار محمد بن قاسم نے ساتویں صدی کے وقت مکران اور پَنجْگُور پر قبضہ کرنے کے بعد دیبل پر بھی قبضہ کرلیا۔

یہ ایک تسلسل تھا کہ سائرس سے لے کر عرب قبضہ گیروں تک بلوچ سماج جب بھی بہتر ہونی کی طرف جاتا تو بیرونی طاقت دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کرتے تھے اور کشت و خون سے مضبوط سماج کا ستھیا ناس کردیتے تھے ۔

اس کتاب کےدوسرے چپیٹر بلوچ کلاسیکل عہد کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف بْیان کرتا ہے بلوچ نے اکثر اپنی تاریخ ایک ہزار سال پہلے کی فردوسی شاعری میں تلاش کی ہے جب کہ بلوچ کی بلوچی شاعری ہمیں فردوسی کی نصف صدی بعد ملتی ہے جس میں بلوچ میں تاریخی ادوار و واقعات کو خوب بْیان کیا گیا ہے اور یہ وہ عہد تھا جب 1530 میں قلات پر ارغون خاندان حکمرانی کررہا تھا جس کے بعد مرزا کامران اس کو شکست دیتا ہے اور اسی طرح ایک بلوچ سردار عمر خان میرواڑی قلات پر حکمرانی کررہا ہوتا ہے جس کو چند عرصہ بعد رند و لاشار شکست دے کر میر مَنْدو رند کو قلات کا خان مقرر کرتے ہیں۔

اور میر عمر کی بیوی اپنے بیٹے بجار کو لے کر مستونگ روانہ ہوجاتی ہے اور بعد میں بجار اپنے والد کی موت کا بدلہ لینے کے لیے دوبارہ کلات پر چڑھائی کرکے مَنْدو رند کو موت دے کر کلات و مضافاتی علاقوں پر حکمرانی شروع کردیتا ہے اور اسی تسلسل کے تحت بجار آخر وقت میں گوشہ نشین ہوجاتا ہے اور حکومت پر دوبارہ مرزا کامراں مغل قبضہ کرتا ہے اور عوام سے وفاداری کا حلف لے لیتا ہے اور جب عوام اس سے تنگ آخر اس کی حکومت کو ختم کرتے ہیں تب قلات پر دوبارہ احمدزئی خاندان حکمرانی کرنے لگتا ہے اور میر احمد خان خانِ قلات مقرر ہوجاتا ہے ۔

اس کے علاؤہ اگر 15 ویں صدی میں عام بلوچ کی زندگی پر بات کی جائے تو اس وقت بلوچ سماج میں اہم پیشہ زراعت اور مویشی ہی تھے بلوچ اس وقت بھی اکثر خانہ بدوشی کی زندگی گزرانے پر مجبور تھے جب کہ بالا طبقہ شاعری ، عشق، جنگ اور شکار کرتے اور زندگی کی رقص میں ناچتے تھے ۔ اب اس دور میں اہم بات یہ کہ شاعری نہ صرف امیر طبقے کی شان ہوا کرتی تھی بلکہ ہر عام وخاص بلوچ اس وقت شعر گو ہوا کرتا تھا۔

اور اس کلاسیکل عہد کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے رہے۔ اور اس کے علاوہ آگے جاکر بلوچ سماج رند و لاشار کی خانہ جنگی کے بدترین دور سے گزرتا ہے جب ترک لارڈ حسین رندوں کے اسرار پر پہلے تو لاشار کی بیخ کو برباد کردیتا اور قبضہ گیر پھر ظالم ہوتا اور یہی لارڈ حسین پھر رندوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں ملک بدر کردیتا ہے اور اس دوران رند و لاشار کے درمیان 25 واں لڑائی ہوجاتی ہیں جس میں صرف عام بلوچ کا خون بہتا ہے ۔ اور اسی طرح جب چاکر بلوچستان بدر ہوکر ملتان جاتا ہے تو وہاں سلطان شاہ محمود چاکر کو کئی زمینوں کا مالک بنا کر اس کی خاصی مدد کرتا ہے مگر ہونا تو یوں تھا کہ چاکر کے برادر کشی کا عہد تو سبی میں ہی ختم ہوا تھا اور پھر ایک ادھ ڈبکی کے بعد تاریخ میں گم نامی اس کا مقدر بن گئی ۔

اس کے علاؤہ اس کتاب کے آخری چیپٹر میں مصنف باقاعدہ بلوچ ریاست کی تشکیل ہونے کے مکمل عمل کا زکر کرتا ہے اور میر عبداللہ خان سے نوری نصیر خان اور میر احمد یار خان کی مزاحمت جنگی داستان جو کہ ہر بلوچ کی یاداشت میں شامل ہیں مکمل زکر کرتا ہے ۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں یہ کتاب بلوچ قوم کی یاداشت کو تازہ کرتا کہ کس طرح اس سرزمین کی حفاظت کے لئے ہمارے آبا و اجداد نے بڑی بڑی طاقتوں کو زیر کیا ۔ اور یہ کتاب خصوصاً ان قبضہ گیر طاقتوں کے لیے بھی ایک سبق ہے جو اس خوش فہمی میں زندہ ہیں کہ بلوچ کے پیروں میں زنجیریں ڈالنا اور اس کی تاریخ و ثقافت کو مسخ کرنا شاید آسان ہے لیکن کیا میر بجار خان ڈومکی ،نوری نصیر خان, میرمحراب خان اور واجہ شیروف کی اولادوں کے ساتھ ایسا کرنا اور ان کا بغیر مزاحمتی راہ اپنانے سے قبضہ گیر کو قبول کرنا ممکن عمل ہے ۔۔۔۔؟

Leave a Reply

Your email address will not be published.