نوآبادیات اور بلوچ مزاحمت

تحریر: سجاد بلوچ

موجودہ وقت میں بلوچستان بھر میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں جس سے بلوچ سماج کے چاروں اطراف سے جنگ، تباہی و بربادی کے لاوے پکتے ہوئے باہر نکل کر سماج کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے کر جلا کر راکھ کر رہے ہیں۔ جنگ و جدل کے اس نہ رکنے والے سلسلے نے ہزاروں، لاکھوں افراد کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے، ہزاروں لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، کٸی افراد کو رات کے اندھیرے میں اِن جلادوں نے اُن کے گھروں سے اٹھا کر اپنے عقوبت خانوں میں بند کر دیا ہے، تو کٸی کی دن دہاڑے گولیوں سے چھلنی لاشیں پھینکی گئیں، آخر کیوں یہ جلاد ہم پر ظلم و جبر کے پہاڑ گرا رہے ہیں کیا بلوچ کو جینے کا حق نہیں، کیا بلوچ باقی ماندہ ترقی یافتہ سماجوں سے مختلف ہیں، کیا یہاں کے لوگ انسان کہلانے کے لائق نہیں؟

یقیناً ان سارے سوالات کا جواب نفی میں ہے اور آج بلوچ اس لیے اِس قدر تباہی و ذلت آمیز زندگی جی رہا ہے کیوں کہ بلوچ مزاحمت کر رہا ہے، نوآبادیاتی آقاؤں کو مقامی لوگوں کی کسی قسم کی حرکت سے کوئی ڈر نہیں لگتا ما سوائے مزاحمت کے، اور بلوچ صدیوں سے مزاحمت کے ذریعے جی رہا ہے، یوں سمجھیں کہ اب مزاحمت ہی بلوچوں کی حقیقی زندگی بن چکی ہے۔ نوآبادیاتی نظام میں نوآباد کار مقامی لوگوں کی مزاحمتی سوچ کو تباہ و برباد کرنے کےلیے اپنی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، انہیں مزاحمت سے دور رکھنے کےلیے مراعات و حاصلات دیتا ہے، انہیں سکون کی زندگی جینے کی تمام تر آسائشیں فراہم کرنا چاہتا ہے، مقامی آبادی کی نفسیات کو اس قدر متاثر کرتا ہے کہ انہیں اپنی ہی قبضہ گیر فوج میں شمولیت اختیار کرنے کی دعوتیں دیتا ہے۔
اگر مقامی لوگوں سے کوئی بھی نوآباد کاروں کے پھیلائے ہوئے اس جال میں پھنس گیا تو سمجھیے اسی دن سے سماج مستقل طور پر ان سامراجی درندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا صرف یہ نہیں بلکہ نوآباد کار اُن مقامی باغیوں کو بھی تباہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جنہوں نے سامراجی جال سے خود کو آزاد کر دیا تھا اور اپنے مادر وطن کی مستقل نجات کےلیے ان سامراجی غنڈوں سے لڑ رہے ہیں۔

نوآباد کار مقامی باغیوں کو کچلنے میں اس لیے بھی کامیاب ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے اس پھیلائی ہوئی گندگی کے جال میں مقامی آبادی کی ایک بڑی تعداد کو پھنساتے ہیں اور پھر نوآباد کار اپنے دشمن(مقامی باغیوں) کو انہی کے ہتھیاروں (لوگوں) سے مات دینے کی کوشش شروع کرتا ہے۔

یقیناً آج بلوچ سماج کو تباہ و برباد کرنے میں نوآباد کار اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا ہے، بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اپنے کارندوں کو علاقے کے میر و سردار کے عہدوں پر فائز کرنا اور بے دریغ طاقت اور تشدد کی بنیاد پر ڈیتھ اسکواڈ بنانا، اور کٸی کو سماج میں مکمل طور پر نشہ جیسے موذی مرض میں مبتلا کرنے کےلیے ڈرگ مافیا بنانا اور ان قومی بیوپاریوں کے سروں پر اپنا ہاتھ رکھ کر انہیں سرکاری خزانے سے مالامال کرنا۔

انہیں دشمن (مقامی باغیوں) کا صفایا کرنے کےلیے دورِ جدید کے تمام تر ہتھیاروں سے لیس کرنا، نوآباد کاروں کا سب سے اہم ہتھیار “Divide and Rule
Policy”
ہے اس ہتھیار سے وہ مقامی لوگوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیتے ہیں اور اُن پر حکمرانی کرنا آسان ہوجاتی ہے۔ اسی پالیسی کے تحت برطانوی سامراج نے خود کو بلوچستان کے تمام سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا تھا اور آج اسی پالیسی کو اپناتے ہوئے موجودہ نوآباد کار بلوچستان پر حکمرانی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جس کی واضح جھلک موجودہ وقت میں ہمیں ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں دکھائی دے رہی ہے کہ کس طرح دو مقامی حریف طاقت کے حصول کی خاطر ایک دوسرے پر کاغذی شیروں کی طرح دھاڑ رہے ہیں، یہی وہ تمام طریقہ کار ( tactics) ہیں جنہیں ہر نوآباد کار مقامی لوگوں کی مزاحمتی سوچ کو کاؤنٹر کرنے کےلیے استعمال میں لاتے ہیں۔

آج جس قدر بلوچستان بالخصوص وڈھ کے علاقے میں تباہی و بربادی کی فضا قائم ہے اس تمام تر واقعے کی ذمہ داری نوآبادیاتی آقاؤں کے ساتھ ساتھ ان کے مقامی گماشتوں کے سر جاتی ہے۔ تُوتک کے کسی کھنڈر میں سے تین سو سے زائد افراد کی لاشیں برآمد ہونا وڈھ کی سڑکوں پر دن دہاڑے نہتّے لوگوں کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کر کے فرار ہوجانا، بارکھان میں پانی کے کنویں میں ایک نوجوان لڑکی کو مار کر پھینک دینا، چاغی گِردِی جنگل میں عزت و غیرت کے نام پر شاکرہ نامی نوجوان لڑکی کو قبائلی جرگے کے فیصلے کے مطابق سرِ عام فائرنگ کرکے ہلاک کردینا، تربت میں رات کے اندھیرے میں مقامی ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں کا چوری کے غرض سے ملک ناز نامی عورت کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کرکے فرار ہونا یہ سب وہ تمام وارداتیں ہیں جنہیں مقامی آبادی کے وہ لوگ سر انجام دیتے رہے ہیں جو سامراجی جال میں پھنس گئے ہیں اب اِن کا شیوہ صرف یہی ہے کہ وہ اس پورے سماج کو دیمک کی طرح چاٹ کر صاف کر دیں۔

سماج کو مکمل طور پر ان درندوں کے رحم و کرم پر بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے، موجودہ پارلیمانی و غیر پارلیمانی جماعتیں و تنظیمیں سماجی مادی حالات سے بہت دور نظر آرہی ہیں۔ گراٶنڈ پر بلوچ پارلیمانی سیاسی قیادت تو پوری طرح سے نوآباد کاروں کی گود میں بیٹھ کر تماشائی بنی ہوئی ہے اور دوسری جانب غیر پارلیمانی جماعتیں و تنظیمیں جو سماجی تباہ کُن حالات کو دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنی ہیں۔ ضروری تو یہ ہے کہ یہ جماعتیں خود کو معروضی حالات سے جوڑ کر قدم بہ قدم ان معروضی حالات سے عوام کی نجات کےلیے انہیں سیاسی مزاحمت کا راستہ دکھائیں، مگر بدقسمتی سے آج وہ خود سماج و سماجی حالات سے بیگانہ ہیں۔ جب سماج مکمل طور پر تہس نہس ہوجائے گا اور آزادی کی کوئی امید بھی باقی نہیں رہے گی تب یہ جانباز اٹھ کھڑے ہو کر سامراج کو للکارنا شروع کر دیتے ہیں مگر مجال ہے کہ اب آکر عام عوام کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آزادی کے روشن سویرے کی جانب گامزن کریں۔

اب پورے بلوچستان خصوصاً وڈھ جیسے علاقوں کو کاغذی شیروں کی چنگل سے آزاد کرنا ہوگا، لسبیلہ کو جامیت سے پاک کرنا، تربت، پنجگور، گوادر، خاران جیسے شہروں کو ڈیتھ اسکواڈز اور ان کے کارندوں سے پاک کرنا، بارکھان، ڈی جی خان، جھل مگسی و سیوی کو مقامی و غیر مقامی درندوں کی شر سے پاک بنانے کےلیے اب فقط عام عوام کو ہی آگے بڑھ کر قیادت کی باگ ڈور سنبھالنی ہوگی اب صرف عوام ہی وہ طاقت ہے جو سردار و سرکار کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکتی ہے، علاوہ ازیں باقی کوئی بھی طاقت برابری، انصاف اور امن کو ممکن بنانے میں تاریخی طور پر ناکام رہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.