عورت اور سیاست

تحریر: رژن بلوچ

سیاست میں عورت کے کردار کو سمجھنے سے پہلے عورت بذات خود کیا ہے اس چیز کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس پدرسری نظام میں عورت کے متعلق مکمل ایک ابہام پیدا کر دیا گیا ہے۔ کہیں عورت عزت ہے تو کہیں بچے پیدا کرنے والی مشین تو کہیں مرد کے رومانس کا نشہ۔ دنیا میں ہر شے اپنا وجود خود رکھتی ہے اور اس وجودیت کی سوال کو چادر میں ڈھانپ کےرعورت کو کسی دوسرے کے وجود سے پہچاننا فطرت کے خلاف ہے۔ عورت ایک مکمل انسان ہے جس کا اپنا وجود ہے اس وجود کو سوالیہ نشان بنا کر وجود کی بقا کو خطرے میں لانا خام خیالی ہے۔ اس پدرسری نظام میں پدرسری کے ٹھیکہ داروں کی، عورت ابتدائی دور میں پابند نہیں تھی کیونکہ معیشت پوری طرح مرد کے کنٹرول میں نہیں تھی بلکہ مرد اور عورت برابر حصہ دار تھے بلکہ عورت اس سے زیادہ محنت کرتی، چیزوں کو منظم کرتی تھی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائی مدرسری نظام میں تمام تر اقتدار پر عورت ہی کو کنٹرول حاصل تھا اور وہ کم از کم مرد کے ہاتھوں تشدد سے تو بچ جاتی تھی، بعد میں جب معاشی نظام مرد کے ہاتھوں میں آیا تو مدرسری نظام کمزور ہوتا گیا اور عورت کا لغام مرد کے ہاتھوں میں آیا اور اس لغام کو وہ جیسے چاہتے کھینچ سکتے اور اسی تسلسل میں عورت کو سماجی فیصلوں، معیشت اور سیاست سے بھی اس لیے دور کیا گیا تا کہ اگر عورت اقتدار میں آئے گی تو طاقت و قوت پر اُن کا قبضہ ہوگا اور مرد اپنی بالادستی اور مردانگی کو خطرے میں پائے گا۔

اگر دیکھا جائے تو اس پورے تاریخی سفر میں عورت کو اس لیے کم تر سمجھا گیا کہ وہ جسمانی طور پر مرد کا ہم سر نہیں تھا جیسا کہ اگر سیاسی طور پر دیکھیں تو سیاست بہت سخت اور پیچیدہ چیز ہے تو عورت کو نا سمجھ اور لا علم بتا کر اس قابل نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ سیاست میں حصہ لیں عورتوں کے حوالے سے ہر حال میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ تاریخ میں پیغمبروں سے لے کر بڑے بڑے فاتحین تک سب مرد تھے لہٰذا اقتدار سنبھالنا یا فیصلہ سازی عورت کی بس کی بات نہیں ہے۔

وہ کم فہم ہے اور بے وقوف ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مرد کو اپنی مردانگی بھی عورت کے ذریعے ثابت کرنی ہوتی ہے اور وہ اس مردانگی کے زریعے عورتوں کا استحصال کرتے اور اس پر جبر کرتے ہیں۔ عورت کےلیے مرد کو خوش رکھنا، گھر میں بیوی کی شکل میں غلام کی طرح کام کرنا ، اس کا فرض بتایا گیا تاکہ وہ سوچ سمجھنے سے قاصر ہو اور اس کا استحصال مرد کرتا رہے اور یہ خاموشی سے سہتی رہے۔

ایک اور اہم بات تو ہمارے سامنے یہ بھی آتی ہے کہ عورت کو اس لیے رفتہ رفتہ سیاست سے دور رکھا گیا تاکہ عورت خود کو مرد کے برابر یا اس سے زیادہ طاقتور نہ سمجھیں اور وہ ہمیشہ دب کر رہیں چونکہ یہ خیالی بات لوگوں کے ذہین میں ڈال دیا گیا تھا کہ عورت محض مرد کی غیرت ہے اور اسے کوئی حق نہیں کہ وہ سیاست یا کوئی دوسرے فیصلہ سازی میں حصہ لیں دراصل اس غیرت کے پردے کے پیچھے کوئی یہ نہیں چاہتا تھا کہ عورت دوبارہ مرد پہ بالادستی حاصل کرے اور معاشرے کو ایک بہتر ڈگر پہ لانے میں اپنا کردار ادا کرے جس میں برابری ہو، مرد عورت کے وجود سے انکاری نہ ہو۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عورت نے ان تمام بندشوں کے باوجود بھی سیاسی میدان میں رول ماڈل بن کے کام کیا۔ ہمارے سامنے ہندوستان کی رفیعہ سلطان کی مثال موجود ہے جنہوں نے اپنی حکومت کے دور میں کس طرح لڑکیوں کی سیاسی تربیت کی اور وہ سیاسی طور پر اتنا ذہین تھی کہ مرد ان کے سیاسی شعور کے سامنے خود کو کم تر سمجھنے لگے اور اس کے خلاف ہوگئے لیکن اُس نے اپنی ذہانت سے اُس تمام تر عورت دشمن دقیانوسی نفسیات کو شکست دے دی۔

یہ کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ روز اول سے مرد کا یہ کوشش رہا ہے کہ عورت کو بطورِ ٹول نسل بڑھانے اور گھریلو کاموں کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ وہ مرد سے کم تر ہو۔ ہر دور میں مرد نے مختلف دلیلیں پیش کیے، مذھب، روایات، اقدار سب کو عورت کے خلاف استعمال کیا۔ عورت کو سیاست سے دور رکھنے کےلئے کبھی غیرت کارڈ کھیلا تو کبھی چادر و چار دیواری کا۔

لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جہاں عورت کو سیاست سے دور رکھا گیا وہاں زوال کے سوا کچھ نہ رہا کیونکہ عورت جب سیاسی عمل سے دور ہو اور شعوری طور پر کمزور ہو تو اسکی نسلیں سیاسی اور شعوری طور بانجھ ہونگی۔

مرد نے ہر وقت عورت کو اپنے گھر میں محدود رہنے کا تحکم جاری کیا اور انہیں یہ حق تک نہیں دیا کہ وہ اقتدار و مملکت کے امور میں مداخلت کریں اور عورتوں کو پارلیمنٹ میں بھی چند مخصوص نشستیں دی گئی ہیں۔ مرد کو ہمیشہ یہ خوف رہا ہے کہ اقتدار میں عورت کے شرکت کی وجہ سے ان کے برتری کا خاتمہ ہوجائے گا تو یہی وجہ ہے کہ مرد مذہبی اور ثقافتی چادر کا سہارا لے کر عورت کو سیاست سے دور رکھ کہ ان پر مسلط ہے۔

اگر ہم تاریخ کھوجیں تو ہمیں عورتوں کی ایسی بہت ساری مثالیں ملیں گے جنہوں نے سیاست میں حصہ لیا اور معاشرتی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اگر ہم مہا بھارت کی مثال لیں تو “دورافتی“ نے تحریک مہابھارت میں سب سے بڑا کردار ادا کیا اور جنگ کے فیصلہ جات بھی اسی نے لیے، دوسری طرف اگر ہم قدیم تامل سنگم کی بات کرے تو اُس میں بھی بہت ساری عورتوں نے سیاست میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی ہیں۔

۱۹۲۹-۱۹۲۱ میں ہندوستانی عورتوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا تو اُس دور میں سب سے زیادہ اچھا حکومت چُنا گیا تھا یہ بات ثابت کرتی ہے کہ عورت بے وقوف نہیں وہ بھی سیاسی میدان میں وہ کردار ادا کرسکتے ہے جو ایک مرد سیاسی کارکن کرتا ہے لیکن مرد کی بہ نسبت ایک عورت کے لیے بہت ہی مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذہن کو سیاست کی لیے تیار کرے کیونکہ ایک عورت سیاست میں جب حصہ لیتی ہے تو اسے اپنے پورے خاندان کو تیار کرنا ہوتا ہے اور پھر جا کے میدان میں اترتی ہے لیکن دنیا بھر میں آج عورتوں کا سیاست میں قدم رکھنا ضروری ہوگیا ہے جب کہ دنیا بھر میں سیاسی عورتوں کی بحران ہے ایک عورت سے بہتر لیڈر اور کوئی نہیں ہوسکتا اور اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو ایک عورت نے ایک مرد سے بہتر لیڈرشپ کی کردار ادا کی ہے اسی نے ہی ہر نئے ایجاد کی بنیاد رکھی ، ضرورت کے تحت ہر بے کار چیز کو کام پے لانا عورت کے عقل کی دین ہے۔

آج ہر انسان کو سمجھنا ہوگا کہ عورت کا کام صرف گھر سنبھالنا نہیں ہوتا جیسا کہ سینڈ برگ کہتے ہیں کہ “ ہمیں عورتوں کو ہر سطح پر لانا ہوگا یہاں تک کہ اعلٰی ترین سطح پر بھی تاکہ چیزیں بہتر ہو سکیں “

ماضی میں اور آج کے دنیا میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ پہلے عورت کا سیاست میں آنا برا سمجھا جاتا تھا سیاسی عورتوں کو بدکردار اور بے حیا کہا جاتا تھا ان کی کردار کشی کی جاتی تھی لیکن ان کے دن میں عورت کو سیاست کا حصہ بلکہ اہم ترین حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب عورت کے اس اَن تھک مزاحمت کی وجہ سے ہے اور عورت اپنی یہ طویل ترین لڑاٸی جاری رکھنی ہوگی، مرد اور سرمایہ کی بالادستی کو ختم کر کے ایک مکمل انسانی سماج تشکیل دینا ہوگا، اسی میں انسانیت کی بقا و بہتری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.