عورت ہی کیوں جبر سہتی رہے؟

تحریر: رضوانہ بلوچ

عورت پر تشدد کی ابتداء اپنی ماں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ تشدد جسمانی نہیں بلکہ ذہنی طور پر دیا جاتا ہے جب بھائی کی نسبت بہن کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک لڑکی کو بچپن سے ہی یہی کہا جاتا ہے کہ تمہارا رتبہ تمہارے بھائی سے کم ہے۔
دنیا کی ہر اچھے سے اچھا آسائش لڑکے کو مہیا کیا جاتا ہے اور عورت کو یہ کہہ کر چپ کروایا جاتا ہے کہ تم عورت ہو اپنے اندر برداشت پیدا کرو، کل کو کسی اور گھر میں جاو گی، وہ گھر جہاں (لڑکا جیسا بھی ہو شرابی ہو، بدکردار ہو، جیسے بھی ہو تمھیں اسی کے ساتھ رہنا ہے بے شک بہو خاندانی اور باکردار ہو) کسی انسان کا عورت ہونا ایک بہت بڑا گناہ ہوتا ہے۔ ذندگی کے ہر موڑ پہ عورت کو ہی اپنے خواہشات کا گلہ گھونٹنا پڑتا ہے۔ عورت سے تو یہ بھی اختیار چھین لی جاتی ہے کہ اپنے پسند کے مرد کو اپنا ہمسفر بنائے۔ بنانا تو دور کی بات ایسا سوچنا بھی بہت بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔
ہاں، مرد دنیا کے کسی بھی کونے سے اپنی من پسند عورت کا انتخاب کرسکتا ہےآخر وہ انسان ہے، مرد جو ہے۔ اسے کہنے والا کوئی نہیں، اسے اختیار ہے ہر اس چیز کا جو عورت کو نہیں ہے۔ عورت کے ذندگی کا فیصلہ بھی اس کے خود کا نہیں ہوتا۔
کھبی کھبار تو عورت کی ذندگی کا فیصلہ یوں بھی ہوتا ہے کہ اسے کنویں میں دھکیل کے یہ کہا جاتا ہے کہ یہی تمھاری قسمت میں تھا۔ لڑکی کو گھر سے رخصت کرتے وقت ہی سکھا دیا جاتا ہے کہ جس گھر میں تمھاری ڈولی جا رہی ہے اسی گھر سے تمھارا جنازہ عزت کے ساتھ نکلنا چاہیئے۔ ایک عزت دار جنازے کے لیے عورت کو مرد کا ہر تشدد برداشت کرنا ہوگا۔ اور وہاں سب برداشت کرنا اگر ایک تھپڑ لگے تو دوسری تھپڑ کھانے کے لیے خود خود ہی کو آگے کرنا لیکن اپنی عزت بچانے کے لیے کھبی افف تک نہیں کرنا، اب جو بھی ہے تمھاری قسمت یہی ہے۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے رشتے کو بچانے کے لیے ہر ظلم اور جبر کو برداشت کرنا ہے۔

کس رشتے کو بچانے کے لیے؟
آقا اور غلام
حاکم اور محکوم
یا ظالم اور مظلوم والے رشتے کو بچانے کے لیے عورت سب برداشت کرے۔۔۔

کسی درد مند انسان کا قول ہے کہ
”اگر مرد چِلا سکتا ہے تو عورت کو بھی کم از کم آہ بھرنے کی آزادی ہونی چاہئے”
لیکن عورت کو تو کھل کے رونے کی آذادی بھی نہیں، کیونکہ وہ عورت ہے نہ اسے برداشت کرنا ہے اور رونے کے لئے بھی بند کمرے کا انتخاب کرنا ہے۔ یہ ہماری سماجی نفسیات ہے کہ عورت کو ہمیشہ نچلے درجے کا انسان تصور کیا گیا ہے۔ بچپن سے شادی تک وہ باپ بھائیوں کی تابعداری میں گزارتی ہے اور شادی سے موت تک شوہر اور بیٹوں کی غلامی اس کی مقدر میں لکھی جاتی ہے۔

میں نے خود مرد کو یہ بولتے سنا ہے کہ عورت کی مثال ٹشو پیپر کی ہے جب چاہے استعمال کر کے پھینک دیا۔ زاتی ملکیت کا یہ تصور عورت کو صرف شئے بنا دیتی ہے جو مردانہ اجاری داری کے شکنجے میں رہتی ہے۔

عورت کو ہر رشتے میں انحصار بنایا گیا ہے
بیٹی ہے تو باپ پے انحصار کرتی ہے
ماں ہے تو بیٹے پے انحصار کرتی ہے
بہن ہے تو بھائی پے انحصار کرتی ہے
بیوی ہے تو شوہر پے انحصار کرتی ہے
اب تو عورت کی نفسیات ایسی بنائی گئی ہے کہ اب اسے خود کسی مرد کا سہارا لے کہ وہ عمل کرنا پڑتا ہے جو کہ وہ خود اکیلی بھی کر سکتی ہے۔ بنیادی طور عورت انسانی آزادی کے تجربے سے محروم ہے۔ اور یہ محرومی سماجی و معاشی اور کئی طرح کی ہیں۔

ماضی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک عورت کو چھٹی بیٹی کو جنم دیتے ہوئے یہ کہا گیا کہ تم نے اس بار پھر سے ایک منحوس کو جنم دیا ہے یہ سن کہ عورت انتقال کر جاتی ہے کہ آخر اس نے ایسا کیا جنم دیا ہے جو کہ اسے منحوس کہا جا رہا ہے۔

یہ ہے ہمارے معاشرے کا سفاکانہ چہرہ جو عورت کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ کسی عورت کے لیے بیٹی پیدا کرنا ایک طعنہ بن جاتی ہے۔ لڑکی کو منحوس سمجھا جاتا ہے اگر منحوس پیدا کرنا اتنا ہی آسان ہے تو آج یہ ایک چیلنج ہے کہ تم کسی منحوس کو پیدا کر کے دکھاؤ۔

کسی نے پیر کی جوتی سمجھا
تو کسی نے عورت کو غلام سمجا
کسی نے چاردیواری کی زیب کہا
لیکن کسی نے عورت کو انسان نہیں سمجھا
آج تک اگر عورت قتل ہوئی تو غیرت کے نام پر۔ تم لوگوں کی غیرت یہی ہے کہ تم عورت کو مارتے ہو، اسے قتل کرتے ہو، اپنے پیروں تلے روند دیتے ہو۔ اسے غیرت نہیں کہتے بلکہ اسے ڈر کہتے ہیں اسے ڈر کہتے ہے تمھیں ڈر ہے کہ وہ تمہاری برابری نہ کرے یا تم سے آگے نہ نکلے اس لیے تم اسے قتل کر کے اسے اپنی غیرت کا نام دیتے ہو اسے غیرت نہیں بزدلی کہتے ہیں۔ اگر اتنا غیرت ہے نہ تو اس عورت کا مقابلہ کہ کے اپنی غیرت جگاو۔

عورت قتل ہوئی تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ قانون کا دروازہ کھٹکھٹاؤ تو آواز آتی ہے کہ یہ تو ذاتی مسئلہ ہے ہمارا کوئی دخل نہیں اس میں۔ اصل میں قانون کے رکھوالے بھی تو وہی غیرت مند مرد ہی ہوتے ہیں ان میں بھی اتنا ہی غیرت ہوتا ہے جتنا کہ اس قاتل میں ہے۔ وہ صرف اپنے غیرت کا رکھوالا ہے۔ وہ انسانوں کا رکھوالا ہے عورت کا نہیں، اس کی نفسیات ایسی ہے کہ اس نے کسی عورت کو انسان سمجھا ہی نہیں کہ وہ اسکی حفاظت کرتا۔
یہ ہے ہماری سماج کا ایک عکس جس نے عورت کو عورت ہی سمجھا ہے انسان نہیں، عورت کو اپنی حرم کی ایک چیز سمجھا ہے، کھبی اسے وہ اہمیت نہیں دی جس کی وہ حقدار ہے ہر چیز میں اسے قصور وار ٹھہرایا، بچے نے غلطی کی سزا ماں کو ملی، کھانا اچھا نہیں بنا تو اٹھا کے منہ پے مار دیا، اس کے اجازت کے بغیر ایک قدم باہر نہیں نکالنا ورنہ اس کی غیرت جاگ جائے گا۔

بیوی کو یہ تاکید کرنا کہ بیٹی کو اپنے نقش قدم پے چلانا اسے بھی برداشت سکھانا، اسے بھی چپ رہنا سکھانا، اسے بھی کہنا کہ تم ایک عورت ہو، اور ہاں بیٹے کو یہ سکھانا کہ وہ ایک طاقتور انسان ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے وہ اپنے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو مار بھی سکتا ہے آخر وہ تو ایک غیرت مند انسان ہے۔ عورت کو محض ایک کھلونا سمجھا جاتا ہے یہ ہے ہماری سماج کی حقیقت تو صدیوں سے چلتی آ رہی ہے۔

اختتام پہ میں یہ کہنا چاہونگی کہ بحثیت عورت میں یہ سمجھتی ہوں کہ بلوچ خواتین کے اوپر مسلط جبر (جسکا پورے تحریر میں زکر کرتی رہی) کے پیچھے ایک سے زیادہ اثباب ہیں۔ بلوچ خواتین جبر کی بہت ساری پرتوں کے نیچے دبی ہیں۔ اس جبر کا طبقاتی اور قومی شکل بھی موجود ہے۔ یعنی کہ اگر آپ ایک محنت کش طبقے کی ‘بلوچ عورت’ ہیں تو پھر استعماریت کی ان تمام شکلوں سے لبریشن یکساں ضروری ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ سب سے زیادہ جس جبر پہ ہماری قومی قیادت نے خاموشی اختیار کی ہے وہ بلوچ خواتین پہ خود بلوچ مردوں کے ہاتھوں جبر کا شکار ہونا ہے۔ کمیونسٹ کہتے ہیں طبقاتی نظام کے خاتمے سے پدرشاہی کا خاتمہ ہوگا اور قوم پرست بضد ہیں کہ یہ آزادی کے بعد کا مسئلہ ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ intersectional politics ہی اس نظریاتی مسئلے کا حل ہے۔ جہاں عورت کے سوال اور پدرسری استحصالی نظام کی بات آئے تو وہاں ہماری اولین ترجیح عورت کا سوال ہی ہونا چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.