بی ایس او شال زون شہید حمید یونٹ کا اجلاس زیرِ صدارت یونٹ جنرل سیکریٹری عثمان بلوچ منعقد ہوا۔

رپورٹ : یونٹ سیکریٹری شہید حمید یونٹ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون (شہید حمید یونٹ) کا یونٹ باڈی اجلاس زیر صدارت یونٹ سیکریٹری عثمان بلوچ منعقد ہوا۔ جس میں مہمانِ خاص زونل صدر کامریڈ ظہور بلوچ تھے اجلاس میں ملکی و بین الاقوامی سیاسی صورتحال، تنظیمی امور سمیت مختلف ایجنڈے زیر بحث رہے جب کہ اجلاس کی کارروائی یونٹ ڈپٹی سیکریٹری یونس بلوچ نے چلائی۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز حسب دستور بلوچستان سمیت محکوم و مظلوم اقوام کے شہدا کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔

اجلاس میں ملکی و بین الا اقوامی تناظر پر ساتھیوں نے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح آج سامراجی طاقتیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کےلیے مختلف محکوم اقوام میں جنگیں طاری کرکے منڈیوں کی تلاش میں تگ و دو کر رہی ہیں۔ وہیں دوسری طرف یہ طاقتیں عوام کو مسلسل استحصال کا شکار بنانے اور آپسی چپقلش میں الجھانے کےلیے نت نئے حربے بھی استعمال کر رہی ہیں، جو کہ آئے روز خونی شکل اختیار کرتے ہوئے محکوم قوموں کی نسل کشی کا ایک واضح رجحان سامنے لارہے ہیں۔ یہ تمام تر محرکات محکوم اقوام کو جسمانی جبر سمیت شناخت و ثقافت اور معیشت و سیاست کے جبر سے دوچار کرنے میں کوئی کسر باقی رہنے نہیں دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں سامراجی قبضہ گیریت اپنی تمام تر توانائیاں اس عمل کو سرانجام دینے کے لیے صرف کر رہی ہے کہ کس طرح معاشی مفادات کےلیے دوسری قوموں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ آسان ہو اور اپنی قبضہ گیریت کو مزید مستحکم کرنے کی خاطر کس انداز سے ایک سامراجی ڈسکورس کو ہر عام و خاص کے ذہن میں ٹھونسا جائے۔ یہ تمام تر عناصر ہی کی وجہ سے آج کسی بھی سماج میں کوئی بھی ادارہ آزادانہ طور پر سماجی فلاح و بہبود جیسی سرگرمیوں کو سرانجام دینے سے قاصر ہے اور نہ ہی ان قوتوں کے رہتے ہوئے سماجی بڑھوتری ممکن ہے۔

بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ساتھیوں نے کہا کہ بطور انقلابی سیاسی کارکن ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک واضح نظام و نظریاتی اصولوں کی بنیاد پر اپنی جدوجہد کو قومی سطح تک بڑھانے کی کوشش کریں تاکہ آنے والے دنوں میں ایک آزاد و برابر اور منصفانہ سماج کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ ساتھ ہی تنظیمی سطح پر کارکنان نے اس امر کی نشاندہی کی کہ بغیر سماجی نظام و نظریاتی اصولوں کے کوئی بھی جدوجہد بے سود ہی رہے گی۔

کیونکہ سماج میں تبدیلی کےلیے لازمی ہے کہ سب سے پہلے سماجی پرتوں کو شعوری سطح پر اس تبدیلی کے لیے تیار کرنا ضروری ہے اور اگر آج ہماری جدوجہد کا رخ سماجی نظام کی تبدیلی کے بجائے فقط اقتدار کے حصول کی طرف ہوگا تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج ایک حاکم سے چھٹکارا حاصل کرکے کل دوسرے کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں لٹکانا پڑے گا اور وہ حاکم ہماری ہی قومیت میں سے ہو سکتا ہے، جیسے کہ اس سے پہلے ڈیتھ اسکواڈز کی صورت میں خانہ جنگی کروانے کی کوشش کی گئی۔

جبکہ آئندہ کے لائحہ عمل میں ساتھیوں نے کتاب کلچر کو پروان چڑھانے کےلیے بک اسٹالز لگانے، اور سیاسی علم و تدریس کے عمل کو تیز تر کرنے کےلیے اسٹڈی سرکلز کو بحال کرنے سمیت دیگر اہم فیصلہ جات لیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.