خودکشیاں اور بلوچ راج

تحریر: بلاول کریم بلوچ

انسان چونکہ اس کائنات کی تمام تر مخلوقات سے بہتر و ابتر مانا جانا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اُس کا شعور ہے اور یہ اس کا شعور ہے جو اس کو تمام کائنات سے نہ صرف آشنا کراتا ہے بلکہ اسے اس کاٸنات کی تسخیر میں بھی کمک و تواناٸی فراہم کرتا ہے۔ انسان کی شعور و آگاہی پر بہت سے مفکر و فلسفیوں نے بحث کی ہے۔

قبل اَز مسیح ایک یونانی فلسفی دان جو (Epicurus) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان اپنی تمام تر زندگی میں اپنی خواہش کو تکمیل تک پہنچانے کی جدوجہد کرتا ہے اس طرح جب اس کی خواہش پوری ہوتی ہے تو اس کے ساتھ وہ مزید خواہشات کا اظہار کرتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے۔ جب انسان کی خواہش ممکل ہوتی ہے اس طرح اس کی زندگی میں ایک نئی تبدیلی آتی ہے۔ اس ساری کشمکش میں انسان حرکت کر رہا ہوتا ہے۔

اس پر مزید (epicurus) کہتے ہیں کہ چونکہ یہ ساری کائنات اور اس میں موجود تمام شے مادے کی بنی ہوئی ہیں۔ مادہ چھوٹے چھوٹے زرّوں سے تشکیل پاتا ہے جن کو ہم ایٹم کہتے ہیں اور ایٹم کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ حرکت کرتا ہے۔ لہذا ایٹم کی حرکت سے مادے میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے ہی مختلف چیزیں وجود میں آتی ہیں۔

جیسے کہ بلوچستان کو اس ریاست میں ایک کالونی کا درجہ حاصل ہے۔ جہاں معاشی، سماجی و سیاسی بندشوں کی وجہ سے سماج میں ایک مایوسی کی فضا قائم ہے جس نے یہاں پر بسنے والے انسانوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ جہاں انسان جب زندگی کا شعور حاصل کرتا ہے تو اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق زندگی بسر کریں، لیکن نوآبادیاتی نظام میں سماج مکمل طور پر بانجھ پن کا شکار ہوتا ہے جو کسی بھی حالت میں تبدیلی کو قبول نہیں کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان کی کوشش برقرار رہتی ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے اپنی مَن کے مطابق زندگی بسر کرے۔

جب سماج کے اندر ایسی کوئی قوت موجود نہ ہو جو اس انسان کو یہ باور کرائے کہ یہ نظام تبدیل ہو سکتی ہے اور اس تبدیلی سے ایک ایسا نظام وجود میں لایا جاسکتا ہے جس میں وہ اپنی خواہش کے مطابق زندگی بسر کرسکتا ہے۔جہاں وہ اپنی تمام تر خواہشات کو پورا کرسکتا ہے جہاں وہ اپنی آزادی کے مطابق حرکت کرسکتا ہے۔ ایسی قوت کی عدم موجودگی میں وہ انسان یکسر مایوس ہوکر شعوری و لاشعوری طور پر اپنی ذات کو نفی کرنے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہو جاتا ہے۔ جہاں وہ منشیات جیسے زہر کو گلے لگا کر زندگی کا خاتمہ کرتا ہے یا خودکشی کر کے ہمیشہ کیلئے خود کو فنا کر دیتا ہے۔

بلوچستان میں حالیہ خودکشیوں کی لہر نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ تباہ کُن بھی ہے۔ ایک طرف طویل ترین جنگی حالت ہے تو دوسری طرف اس جنگ کے گرد پروان چڑھنے والا ثقافت، حوصلہ، ہمت، مایوسی، اعصاب شکنی، بھوک، افلاس، چاروں جانب تاریکیاں، ظالم کی سفاکیت، اپنوں کی بے حسی اور انتشار سب مل کر ایک انسان کو نفسیاتی طور پر مفلوج کر دیتے ہیں۔

ویسے تو بلوچستان میں کوٸی ایک بھی ایسا انسان وجود نہیں رکھتا جو نفسیاتی حوالے سے سو فیصد ٹھیک ہو، مگر سب سے زیادہ متاثر اس وقت نوجوان طبقہ ہے جو آٸے روز ”خودکشی“ کو گلے لگا کر موت کو اپنا مقدر چُنتے ہیں۔

ایک طرف خودکشی کو بہادری سمجھا جاتا ہے تو دوسری طرف یہ عمل انتہاٸی نِیچ و بزدلانہ فعل بھی ہے، بہادری کا عمل اس لحاظ سے کہ کسی سماج کے اندر افراد کو تمام تر آساٸشیں، دنیاوی سہولتیں میسر ہوں، پریشانی افلاس دکھ اس کو چھو کر بھی نہ گزر سکے اس سماج میں اس پرتعیش زندگی کو ختم کرنا حوصلہ و ہمت مانگتا ہے اس لیے اس مخصوص پیراٸے میں اس عمل کو میں بہادری جانتا ہوں، جب کہ دوسری جانب دکھ ہی دکھ ہو، رکاوٹ ازیت، سفاکیت، جبر، مایوسی عروج پر ہو، ایسا سماج جہاں سوچ پر پہرہ ہو، عمل کا نتیجہ زندان ہو، مزاحمت کا نتیجہ بھوک ہو وہاں پھر خودکشی لڑنے اور جدوجہد کرنے سے رائے فرار کا ایک ذریعہ ہے۔

مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ سماج کے اندر خودکشیوں میں روز کیوں اضافہ ہو رہا ہیں خبروں میں خودکشی کی ہیڈ لاٸن سے تو ہم چونک جاتے ہیں مگر ان ہزاروں نوجوان بچوں اور بچیوں کو ہم پوچھنا بھی گوارہ نہیں کرتے جو خودکشی سے ایک قدم پہلے کی مسافت پر ہیں۔ ان کے سامنے زندگی کو کالونیٸل طاقتوں کی جانب سے نرگ بنا دی جا چکی ہے۔ وہ اگر جی بھی رہے ہیں تو اس وجود پر ان کا کوٸی خاص اختیار نہیں بس مزاحمت ہے زندہ رہنے کی جدوجہد ہے، اس امید کے ساتھ کہ ایک دن وطن ہمارا ہوگا، جہاں بندشیں، اذیتیں نہیں ہونگی، کسی کا بھی استحصال نہیں ہوگا، جہاں آزادی ہوگی، سکون ہوگا، امن ہوگی زندگی ہوگا۔

مگر اس امید اور حوصلے کے باوجود خودکشی کے اس بڑھتے ہوٸے رجحان کو روکنے میں ہم مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ سول سوسائٹی ، تنظیمیں، قومی و سیاسی جماعتیں سب کے سب اس سلسلے میں یا تو ششدر اور حیران ہیں یا پھر فقط تماش بین بنے بیٹھے ہیں۔ سیاسی جماعتیں زیادہ سے زیادہ افسوس کی ایک ٹویٹ کرکے سوشل میڈیاٸی ماتم کر رہے ہیں، دانشور نامی کسی مخلوق کا تو اتہ پتہ نہیں، وہ پروگراموں میں تقریریں جھاڑ کر، بڑی بڑی باتیں کرکے مرد و زن سے تالیاں سمیٹنے اور سلفیاں کھینچنے میں مصروف ہے۔

جب تک اس منفی رجحان کا ساٸنسی بنیادوں پر جاٸزہ لے کر ساٸنسی تحقیق نہیں کی جاتی، اس کے خلاف باقاعدہ طور پر بھرپور ارادے اور ایک انسان دوست پالیسی او انقلابی نظریاتی رجحان کے ساتھ میدان میں نہیں اترا جاتا تو روز اسی طرح خبروں میں ہم سنیں گے خودکشیوں کا شرح بڑھتا رہے گا اور یہ بلوچ کش عمل پروان چڑھتا رہے گا اور بلوچ لاشیں اٹھاتا رہے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published.