قومی محکومیت اور ہماری زمہ داریاں

تحریر: سجاد بلوچ

موجودہ حکمران طبقہ چاہے مقامی ہو یا غیر مقامی اس کے زندگی کی تمام تر عیاشیاں محض محنت کش طبقے کی زندگی بھر کی محنت و مشقت پر منحصر ہے۔ محنت کش طبقہ اپنے دو وقت کی روٹی کےلئے خواری و ذلت آمیز زندگی جینے پر مجبور ہورہا ہے صبح سے شام تک برابر رفتار سے حرکت کر رہا ہوتا ہے اس کی تیز رفتار حرکت کی وجہ سے تو یہ نظام چل رہا ہے جس پر آج حکمران طبقہ قابض ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نظام کی باگ ڈور محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں ہوتی مگر آج اس نظام کو چلانے والے بیوروکریٹس نے محکوم طبقے کو اس سسٹم کا انجن بنادیا ہے جوں ہی یہ انجن حرکت کرنا شروع کر دیتا ہے اس سسٹم کے پہیے چلنا شروع کر دیتے ہیں جب یہ انجن رک جاتا ہے تو مجال ہے کہ کوئی اس کی مرمت کریں بس اس پر تیل چھڑک کر اور زیادہ اس سے کام لیا جاتا ہے۔

آج دنیا بھر میں جہاں ایک طرف دس فیصد لوگ عیش و عشرت کی زندگی جی رہے ہیں وہیں حق کے مارے نوے فیصد لوگ خواری و ذلت آمیز زندگی جینے پر مجبور ہورہے ہیں۔ حکمرانوں کی عیاشیاں اور محنت کش طبقے کی خواری اور ان کے درمیان اس تمام تر طبقاتی تفریق کی اصل وجوہات و محرکات کو اگر بہتر انداز میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہم اس حقیقت سے کبھی پرے نہیں رہ سکتے کہ ذاتی ملکیت کے تصور نے انسانوں کے درمیان طبقاتی تفریق پیدا کردیا تھا اور اسی ذاتی ملکیت کے آغاز سے ہی انسانیت دو لخت ہوکر بکھر گئی جو آج دن تک ایک لڑی میں پرویا نہیں جارہا ہے۔

انسانوں کے درمیان طبقاتی تفریق نے بالادستی و زیر دستی کے خیالات کو بھی جنم دیا اور اسی سے بالادست طبقات نے تمام تر زرائع پیداوار و پیداواری قوتوں پر دھاوا بول کر ان پر قابض ہوگئے جس سے بالادست طبقے کو مزید مظبوطی و طاقت مل گئی جو سماج کے تمام تر سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔

ہزاروں سالوں سے بالادست و زیر دست طبقات کے درمیان طاقت کے حصول کیلئے خونی جنگیں، تباہکاریاں ہوتی گئیں، ہزاروں لاکھوں محکوم و محنت کش ان جنگی تباہکاریوں سے شہید ہوگئے مگر حق صداء کی خاطر ہر عہد میں آواز بلند کرتے رہے کبھی بھی بالادست طبقے کے سامنے سر تسلیم خم نہیں ہوئے آخر کار آج سے قریباً ایک سو چھے سال پہلے محنت کشوں نے دنیا کے ایک کونے میں بالادست طبقے کو زیر کرکے طاقت اپنے ہاتھوں منتقل کر دیا یہ فتح محنت کشوں کی تاریخی فتح تھی جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ حقیقی انقلاب کبھی تھم نہیں سکتا ہاں وقتی طور پر اس آشوب میں اتار چڑھاؤ تو ضرور آتا ہے مگر یہ ختم ہرگز نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ انقلاب کوئی ساکن شے نہیں جو ایک جگہ پر آکر روک جاتا ہے انقلاب ایک تغیر پذیر و ارتقائی عمل ہے جو مختلف مراحل طے کرتے ہوئے ارتقاء کی جانب بڑھنا شروع کر دیتا ہے یہ اس وقت تھم جائے گا جب پورے دنیا میں جنگی اصولوں کا خاتمہ ہو اور دنیا اشتراکیت کے پیرول پر چل رہا ہو عین اسی وقت ممکن ہے کہ تحریکیں تھم جائیں۔

آج کرہ ارض پر باقی دیگر محنت کش و محکوموں کی طرح بلوچ محنت کش و مظلوم طبقہ بھی خواری، اذیت سے بھرا و ذلت آمیز زندگی جی رہا ہے بلوچ ریکوڈک و سیندک کی معدنی ذخائر کا مالک ہوتے ہوئے بھی دن بہ دن اسکی حالت بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہوتی جارہی ہے۔

نوآبادیاتی خداؤں کی عمیق ترین جبر و تشدد سے بلوچ قوم کی حالت اس قدر بگڑ گئی ہے کہ نا وہ اپنے گھروں میں محفوظ ہیں نا تعلیمی اداروں میں اور نا ہی باقی ممالک میں سکونت کی زندگی جی رہے ہیں۔ اگر بلوچ محنت کش طبقے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو وہ بھی اس ریاستی و مقامی جبر کا برابر شکار ہیں محنت کش طبقہ فقط دو وقت کی روٹی کیلئے کبھی نام نہاد قومی پاسبان (سرداروں) کی درگاہ پر تو کبھی غیر ملکی حکمرانوں کے دروازوں پر در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ ان حکمرانوں کی بارگاہ سے ان مظلوم و بے سہارا لوگوں کو اور کچھ نصیب نہیں ہوتا سوائے چہرے پر رنج و غم اور اداسی کے اسی اداسی کو لے کر رنجیدہ حالت میں وہ واپس تکے ہوئے چہروں کے ساتھ اپنے چھوٹے سے تنگ جھونپڑی کا رخ کرتے ہے
نوآبادیاتی نظام میں بلوچوں کیلئے بلوچستان میں زندگی گزارنا انتہائی کٹھن ہوگیا ہے مگر ملک بدر زندگی جینا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے، زمین ماں کی مانند ہوتی ہے ماں سے بچھڑ کر یقیناً زندگی جینا محال ہے تو پھر کیوں نا دھرتی ماں کو ہمیشہ کیلئے ان ملکی و غیر ملکی حکمرانوں کی عذاب سے پاک و صاف کرکے اس کی گود میں آرام سے زندگی گزاریں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ نجات کے کونسے راستے پر چل کر اس بربریت سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں دنیا میں بہت سارے ایسے ممالک ہیں جو اس نوآبادیاتی دور سے آزاد ہو کر بھی آج تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں زیادہ دور نہیں جائیں بلکہ ہندوستان پر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو یہ بات واضح طور پر دیکھنے کو ملے گا کہ برطانوی سامراج کی چنگل سے آزادی پانے کے بعد بھی ہندوستان کی محنت کش طبقے کی حالت زار اب تک ابتر ہے جو اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ حقیقی آزادی کے حصول کیلئے فقط غیر ملکی حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کی جنگ نہیں لڑنی چاہیے بلکہ ان کے گماشتوں (مقامی اشرافیہ) سے بھی یک برابر طاقت کے ساتھ جنگ لڑنا پڑے گی۔

کیوں کہ مقامی اشرافیہ قطعی طور پر محنت کش طبقے کا نجات دہندہ نہیں ہوسکتا وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ محنت کش طبقہ حکمران طبقات کی گدی پر فائز رہے، ہمیشہ سے ان دو متضاد طبقات کے درمیان تضادات رہی ہیں اور یہ ایسے سخت ترین طبقاتی تضادات ہیں جن کا حل محض دوسرے طبقے کا خاتمہ ہے خواہ وہ ختم ہونے والا طبقہ محنت کش ہی کیوں نا ہو مگر ارتقائی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ارتقائی نظریات کبھی ختم نہیں ہوسکتے سماج کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے والے نظریات کا اگر خاتمہ ہو جائے تو سماج ایک جگہ پر جامد ہوجائے گا مگر دنیاوی سماج ازخود ایک مادی شے ہے جو ہرگز ایک حالت میں نہیں رہ سکتا مسلسل تبدیلی کی راہ پر گامزن ہے تو عین اس بات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ محنت کش طبقے کا یا ان کے نظریات کا قطعی طور پر خاتمہ نہیں ہوسکتا اس کے متبادل تاریخی شواہد اس بات کی دلالت پیش کرتے ہیں کہ جمودی خیالات (حکمران طبقات کے خیالات) کا تاریخ میں خاتمہ ہوا ہے جو مادی دنیا کو ایک جگے پر ساکن رکھنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہوتے ہیں۔

تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج بلوچ نیشنل بورژوازی اگر قومی حق خودارادیت کے نعرے پر لبیک کریں تو اس کی یہ لبیک بھی مشکوک ہے کیونکہ تاریخ میں کبھی بھی ایسے شواہد نہیں ملتے جس سے یہ ثابت ہوسکیں کہ حکمرانوں نے محنت کش طبقے کی حقیقی آزادی کے حصول کیلئے دَری سامراجی طاقتوں سے جنگیں لڑی ہیں اگر نیشنل بورژوازی محکوموں کی صفوں میں شامل ہوکر غیر ملکی سامراجی طاقتوں کے خلاف اور حق خودارادیت کے اصول کیلئے کمربستہ ہو بھی جائے تو یہ بات بھی ذہین نشین ہونی چاہیے کہ مقامی اشرافیہ کی جنگ محنت کشوں کو نجات دلانے کے لیے نہیں بلکہ ملکی منڈی، زرائع پیداوار و پیداواری طاقتوں پر سے غیر ملکی نوآبادکاروں کے تسلط کا خاتمہ کر کے اسے اپنے ہاتھوں منتقل کرنے کی حصول کیلئے ہے اور جوں ہی یہ غیر ملکی آبادکار یہاں بے دخل کردیئے جائیں گے تو تمام تر پیداوار پر مقامی اشرافیہ قابض ہوجائے گا جس سے محکوم طبقے کی حالت میں اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوجائے گی۔

آج ایک لڑائی بلوچ سماج میں غیر ملکی سامراج کے خلاف لڑی جارہی اس کے ساتھ ساتھ اگر مقامی بورژوازی کے خاتمے کے لیے بھی جنگ لڑی جائے تو شاید بلوچ قوم کا محنت کش طبقہ حقیقی نجات حاصل کرسکے گا وگرنہ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد بھی بلوچ سماج میں خانہ جنگی کا ایک نیا باب شروع ہوگا جو نہایت بھیانک اور انتہائی خون ریز جنگ کی شکل میں نمودار ہوگی جس سے ہزاروں لاکھوں افراد کی جانوں کا ضیاں ہوگا تو اس خانہ جنگی سے بچنے کیلئے آج ضروری امر یہی ہے کہ قومی تحریک میں قومی سوال جو اولیں حیثیت رکھتاہے اس کے ساتھ طبقاتی سوال (جو ثانوی حیثیت رکھتاہے) کو بھی اہمیت دیا جائے تاکہ مقامی اشرافیہ غیر ملکی حکمرانوں کے ساتھ ختم ہو جاٸے اور بلوچ سماج نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد خانہ جنگی سے بچ جائے۔ گنی بساؤ اور کھیپ وردے کے عظیم گوریلا کمانڈر امیلکار کیبرال ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تحریک آزادی کا اولین مقصد سیاسی آزادی سے بہت آگے تک جاتا ہے، اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ زرائع پیداوار کو مکمل طور پر آزاد کرایا جائے اور عوام کی ثقافتی، سماجی اور معاشی ترقی کی بنیادیں مضبوط بنائی جائیں۔“

زرائع پیداوار کو اس وقت مکمل طور پر آزاد کرایا جاسکتا جب تک زرائع پیداوار و پیداواری قوتوں کو دری آمر سے لیکر مقامی آمروں کی ناپاک عزائم سے محفوظ نہ کردیا جائے۔

طبقاتی سوال کو نوآبادیاتی معاشرے میں اُجاگر کرنے کیلئے طبقاتی نظریات کو لوگوں کے شعور میں جنم لینا پڑے گا اور سوشلزم ہی وہ واحد نظریہ ہے جو نوآبادیاتی نظام میں اندرونی طبقاتی تضادات کو تیز تر کرتا ہے تا کہ ان کا خاتمہ یقینی ہو سوشلزم ہی حاکم و محکوم کے درمیان طبقاتی تفریق کو آشکار کر دیتا ہے اور مظلوم کو ظالم کے خلاف بغاوت کیلئے نظریاتی و شعوری طور پر مسلح کر کے سماج میں اتار دیتا ہے جو تیزی سے نیشنل بورژوازی کی چنگل سے عوام کو کاٹ کے پرولتاریہ کی حقیقی آزادی کی جانب مائل کردیتا ہے
آج سے کہی برس پہلے ہندوستان موجودہ بھارت بھی برطانوی نوآبادیاتی ڈھانچے کے زیر سایہ سلگ رہا تھا مختلف طبقہ فکر کے لوگ انگریز راج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نام بھگت سنگھ کا بھی ہے جو اپنے چند ساتھیوں سمیت نا صرف انگریز راج کی کاروکاری کے خلاف کمر بستہ میدان میں قدم رکھ چکے تھے بلکہ نیشنل بورژوازی کے خلاف بھی یک برابر طاقت کے ساتھ جنگ لڑنے کو تیار تھے بھگت سنگھ اپنے ایک تقریر میں اپنے کامریڈز سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جہاں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لیں ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں غلامی اور استحصال پر مبنی یہ بوسیدہ نظام قائم رہے ہماری لڑائی ایسی آزادی کے لیے ہے جو اس ظالمانہ نظام کو ایک انقلاب کے ذریعے بدل کر رکھ دے“ بھگت سنگھ کی اس تقریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ کس نظریے پر کاربند تھا مگر ظالم درندوں نے بھگت کے نظریات سے خطرہ کھا کر اسے ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا کردیا مگر اس کے نظریات کو ظالم کبھی ختم نہیں کر پائے آج دن تک بھگت کے نظریات بھارتی فاشسٹ حکومت کے خلاف ایک توانا و مستحکم آواز ہیں جو اس مودی کی فاشسٹ حکومت کے خلاف مسلسل عوام کو بغاوت پر اکساتے رہتے ہیں اور دوسری جانب ہندوستان کی ماؤاسٹ نکسلائیٹ موومنٹ جو شروع دن سے ہی سرمایہ دار مخالفت سوشلسٹ تحریک ہے جو ہر عہد میں فاشسٹ حکومتوں کے خلاف مضبوط و توانا اوزار کا کام کر رہا ہے۔

مگر آج بلوچ سماج میں عالمی سامراجی طاقتوں اور ان کے گماشتوں (مقامی اشرافیہ) کی طرف سے انٹر ازم کے حربے کو استعمال کرتے ہوئے ایسے خیالات جنم دے رہے ہیں جو سوشلزم کے عظیم نظریے کو رجعت پسند نظریے سے تشبیہ دے کر عام عوام محنت کش و محکوموں کو سوشلزم کی طرف بڑھنے سے روک رہے رہیں۔ انٹر ازم ایک ایسا حربہ ہے جو حریف اس طرح اختیار کرتاہے کہ جس ادارے یا پارٹی، تنظیم کو برباد کرنا ہو اسی کے اندر پختہ اعتماد جیت کر اس کو تباہ و برباد کردیتا ہے اس کا دوسرا طریقہ واردات یہ ہے کہ حریف باہر سے اداروں اور پارٹی، تنظیم میں قیادت کی لیول سنھبال رہا ہوتا ہے اور یقیناً آج عالمی سامراج بھی اسی انٹر ازم کے حربے کو استعمال کرتے ہوئے بلوچ قومی تحریک کو سوشلزم کے عظیم نظریے سے دور کرکے محض سرمایہ داریت کے پیرول پر چکر دے رہا ہے یقیناً آج عالمی سامراج کو سوشلزم سے خطرہ ہے اور وہ سرمایہ داریت کو دنیا کی آخری فتح ثابت کرنے کا کھلا ڈھونگ رچا رہے ہیں اور اسی سرمایہ داریت کے دائرے کے اندر رہ کر محکوم طبقات کی آزادی کی تحریکوں کو ئائی جیک کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں اس بات کی دلالت پیش کرتا ہے کہ آج عالمی سامراج مکمل طور پر محکوموں کی تحریکوں میں گھس کر اپنے لیے مضبوط پوزیشن حاصل کر چکی ہے اور وہ اس تمام تر تحریک کو سرمایا دارانہ نظام کے دائرے میں مقید رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سامراج کو محکوموں کی تحریکوں سے دور بھگانے اور تحریکوں کو سامراجی گھیراؤ سے پاک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ محکوموں کی تحریکیں و تنظیمیں سامراج مخالف نظریات پر کاربند ہونا شروع کر دیں اگر بلوچ سماج کے اندر حق صداء کی خاطر آواز بلند کرنے والے بلوچ سرزمین کے تمام بہادر فرزند نیشنل ازم کے ساتھ سوشلزم کے وسیع تر نظریے کو نجات راہ کیلئے اپنائے تو شاید وہ دن دور نہیں جب بلوچ سماج کے محنت کش طبقہ اپنی حقیقی آزادی کی منزل تک پہنچ جائے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published.