گوادر ترقی اور حقیقت

تحریر: غلام رسول آزاد

گوادر پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع بلوچ وطن کا ایک بہت ہی اہم خوبصورت دلفریب شہر جو اپنے شاندار محل و وقوع گرم پانی، گہرے سمندر کی بندرگاہ سے نہ صرف مشہور ہے بلکہ بہت اہم شناخت رکھتا ہے ۔ گوادر اصل میں بلوچی زبان کے دو الفاظ سے بنا ہے گوات یعنی “کھلی ھوا ” اور در کا مطلب” دروازہ” ہے۔ یعنی (ھوا کا دروازہ)،
60 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی والے شہر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ کو دنیا کے منڈیوں تک کے رسائی کا وقت جوں جوں قریب آ رہا ہے اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہوگا۔

اس ساحلی علاقے کی ایک بڑی بندرگاہ بننے کی قدرتی صلاحیت اس سے پہلے ہی سامنے آ چکی تھی جب 1954 میں امریکی جیالوجیکل سروے نے گوادر کو ڈیپ سی پورٹ کے لیے بہترین مقام قرار دیا تھا۔ جو کہ اس وقت دنیا کی نظریں اس پر جمی ہوئی ہیں۔ اور دنیا اس انداز میں بدلتی ہوئی تیزی کی طرف بڑھتی رجحان میں ہے، جیت کی نفسانفسی کی اس دوڈ میں کون آگے کون پیچھے رہ گیا کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

پاک چین دوستی سے سرمایہ کاری حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ دونوں کے مابین 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے طے پا گئے ہیں۔ اور مرکز پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کو چونا لگایا ہے جس سے پورے پاکستان میں ایک آواز بلند ہوئی ہےکہ پاکستان کا پسندیدہ صوبہ بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کی طرف بڑھتی جارہی ہے۔
دوست احباب بس ہم سے ایک ہی سوال کرتے ہیں، دوست سنا ہے کہ ہواؤں کا شہر مطلب گوادر تو بہت ہی خوبصورت اور دلکش ترقی یافتہ ممالک میں سے بدلتی ہوئی دنیا کی طرح چلتا آرہا ہے، ہم ان سوالوں کو سن کر ہنس دیا کرتے تھے اور دل ہی دل امیدیں وابستہ کرلیتا تھا۔
شاہد دنیا کی بدلتی ہوئی اس تیز ترین ترقی سے شاہد ہماری بھی قسمت کو دو چاند لگ جائیں، ہم بھی ان ممالکوں کی طرح دیگر ساحل و وسائلِ تعلیم و تربیت ٹکینالوجی ساز و سامان کے ساتھ دنیا میں ایک نام رکھیں مگر شاید میں غلط تھا۔

جب میں کچھ عرصے بعد ہواؤں کے شہر گیا، شاہد دوستوں کی بات درست تھی، گوادر دلکش انداز میں ہی خوبصورت تھا، دور سے سورج کی روشنی سے سمندر بہت ہی خوبصورتی بیان کرتا لہروں میں تبدیل ہوتا جارہا تھا، قدرتی ساز سے خوبصورت مقامات جوکہ صدیوں سے ہیں۔گوادر تو ترقی اور ترقیاتی منصوبوں پر ہی تھا، چمکتی شیشوں کی عمارت ، روڈوں پر واقع لائٹس اور ہر طرف سیل و تفریح کیلئے مقامات تھے۔

مگر قوموں کی ترقی چمکتی ہوئی عمارت اور ترقیاتی منصوبوں سے اور کھیلوں کے میدان سے نہیں ہوتی ہے ، فائیو اسٹار ہوٹلوں اور ریستورانوں سے نہیں ہوتی ہے،
قوموں کی ترقی نوجوانوں کو منشیات کے عادی بنانے سے نہیں ہوتی ، قوم کی ترقی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک قوم کو ایک سنجیدہ تعلیمی نظام نہ دیا جائے، قوموں کی عظمت میں راحت ہے اور مسرت ہے جبکہ کوتاہی اور لاپرواہی کرنا موت کا دوسرا نام ہے ،
آج اگر بات کرنے سے با آواز کردیا جاتا ہے حق کے لیے آواز کو بےآواز کردیا جاتا ہے۔
جو لوگ آج کو نہیں پہچانتے, کل انہیں بے نام و نشان کر دیتا ہے۔
جو وقت کی قدر سے بے نیاز ہے وقت بھی انہیں فراموش کر دیتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published.