وڈھ میں ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف عوام کو مسلح مورچہ زن کرنے کی بجاٸے سیاسی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جاٸے: بی ایس او

مرکزی ترجمان: بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن کے مرکزی ترجمان نے وڈھ میں جنم لینے والے کشیدہ حالات کے تناظر میں اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ دو دہاٸی کے اندر بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈز کی تشکیل انتہاٸی زیرک انداز میں منصوبہ بندی کے ساتھ کی گٸی تاکہ بلوچ قومی تحریک کو پرتشدد انداز میں کچلا جاسکے۔ ان مسلح جتھوں کو بلوچ نسل کشی کے باقاعدہ اسناد جاری کیے گٸے جس کے نتیجے میں ھزاروں سیاسی کارکنان، وکلا، اساتذہ، سمیت عام عوام جن میں عورتوں بوڑھوں اور بچوں کو بھی قتل و اغوا کرنے کا نہ تھمنے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 

بلوچستان میں اکیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی قومی تحریک کو کچلنے اور عوامی مزاحمت کے پیش نظر بلوچستان کے ہر حصے میں ڈیتھ سکواڈز کو پروان چڑھایا گیا۔ سیکڑوں کی تعداد میں اجتماعی قبروں کا دریافت ہونا، ھزاروں بلوچ فرزندوں کو شہید کرنا اور جبری گمشدگی کا شکار کرنا بلوچستان پر نوآبادیاتی ظلم و جبر کی تاریخی مثالیں ہیں۔

وڈھ کے غیور عوام کو اب بھی سینکڑوں افراد کا لاپتہ ہونے، اغوا براٸے تاوان، لوٹ مار، چوری و ڈکیتی اور قتل و غارت جیسے مسائل کا سامنا ہے شاید ہی کوئی گھرانہ ان جرائم پیشہ افراد کے شر سے محفوظ رہا ہو. کاروباری افراد سے لے کر عام عوام تک سب لوگ ان عناصر کو بھتہ دینے پر مجبور ہیں اور حال ہی میں وڈھ سے عورتوں کو بھی اغوا کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

اس جبر و بربریت اور سفاکیت کے ماحول میں بلوچ سیاسی جماعتوں بالخصوص پارلیمانی جماعتوں کی طویل خاموشی ان جرائم پیشہ افراد کیلئے خاموش حمایت کا کام کرتی رہی ہے۔ بی این پی کی حکومت میں ہونے کے باوجود انہوں نے وڈھ کے مسائل کو حل کرنے کیلئےکبھی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔ بلکہ ان سیاسی جماعتوں نے وڈھ کو دانستہ طور پر پسماندہ رکھا ہے تاکہ اپنا قبائلی اثر و رسوخ و حکمرانی دائمی طور پر قائم رکھی جاسکے۔

مزید براں تمام پارلیمانی جماعتیں خود ان ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر سرکار کی گود میں جا بیٹھی ہے اور  وزارتوں اور ٹھیکوں کو اپنا مقصد سمجھتی ہیں۔

آج جب عام عوام ڈیتھ اسکواڈز کے مظالم سے بیزار ہو کر ان مسلح گروہوں کے خلاف مسلح ہوچکے ہیں تو یہی قیادت عوام کے غم و غصّے کو درست سمت دینے میں ناکامی کا شکار ہے اور حقیقی عوامی تحریک کو  سیاسی قباٸلی کشت و خون اور مسلح مورچہ زنی کی بے سود راہ پر لگانے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ کسی بھی طرح اس معاملے کا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔

یہ قومی سطح پر لیڈرشپ کا بحران ہے کہ قومی نمائندے ایک علاقے کے حوالے سے بیانیہ نہیں دے پاتے اور اپنے مرکزی حلقوں کو ایک دیر پا پروگرام دینے میں ناکام ہے۔ یہ بلاشبہ بلوچستان کے مقبول رہنماؤں پر سوالیہ نشان ہے کہ وہ ہر عوامی مدعے کو سیاسی سطح پر لے جانے کی بجائے قبائلی سطح پر لاتے ہیں۔

آج سامراجی پالیسی کی باقیات نے بلوچ سیاست کو یرغمال کیے رکھا ہے۔ قبائلی نظام کو مسخ کر کے مصنوعی طور پر طاقت کے کردار تراشے جاتے ہیں اور ان کی آپسی رسہ کشی میں عوامی تحریک کا راستہ روکا جاتا ہے۔ آج بلوچستان کو پہلے سے کہیں زیادہ جدید سیاسی بنیادوں پر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ قوم مزاحمت کے طویل عمل سے گزر چکی ہے اور انہیں بنیادی سیاسی و معاشی سوالات سے جوڑ کر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
بلوچ عوام کو اس وقت نہ صرف علاقاٸی ڈیتھ سکواڈز کا مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ سامراجی پالیسیز جن کی بنیاد پر جبر کا یہ نظام قائم ہے کے خلاف ایک انقلابی پروگرام کے ساتھ عوامی احتجاجوں اور تحریکوں کو اپنا محور بنانا ہوگا۔ چند جرائم پیشہ قبائلی سرداروں کا وڈھ کی عوام کی زندگیوں پر قبضے سے نجات تب ہی ممکن ہے جب اس جبر کو قائم رکھنے والے تمام کرداروں کو بے نقاب کرتے ہوئے سیاسی مزاحمتی جنگ لڑی جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.