نشتر ہسپتال سے سینکڑوں بے نام لاشوں کا ملنا اور آئے روز بلوچستان سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پر تشویش ہے: بی ایس او

مرکزی ترجمان: بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے گزشتہ دو دہاٸیوں سے بلوچستان میں جبر و بربریت کی ایک ایسی فضا قاٸم کردی گٸی ہے کہ جہاں انسانی حقوق کی پامالیاں معمول بَن گٸی ہیں۔ جبری گمشدگیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ بلوچستان میں کوٸی بھی شخص خود کو محفوظ نہیں سمجھتا اور آٸے روز جعلی مقابلوں میں ان جبری طور پر گمشدہ کیے گٸے لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے ۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں اب تک سینکڑوں مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا چکی ہیں اور اس وقت دشت میں ان نا شناخت کردہ لاشوں سے باقاعدہ طور پر ایک قبرستان آباد کیا جا چکا ہے جن سے قبروں میں مسلسل اضافے کے سبب قبرستان آٸے روز وسعت پا رہا ہے جب کہ بلوچستان میں اب تک توتک، پنجگور اور ڈیرہ بگٹی سے اجتماعی قبریں بھی دریافت ہو چکی ہیں ۔

تسلسل کے ساتھ سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کا قتل، نوجوانوں کی مسلسل جبری گمشدگی، اجتماعی قبروں کا دریافت ہونا، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سمیت بلوچستان میں مجموعی کشت و خون اور بلوچ نسل کشی پر مبنی پالیسیز نے بلوچ کو نفسیاتی طور پر اتنا حساس کر دیا ہے کہ آج کہیں بھی کوٸی لاش برآمد ہوتی ہے تو بلوچ عوام بالخصوص لاپتہ افراد کے لواحقین میں ایک خوف و دہشت پھیل جاتی ہے کہ کہیں ان کے پیاروں کو مار کر پھینکا نہیں گیا ہو۔ ان لاشوں کی شناخت کےلیے دور دراز سے دوڑے چلے آتے ہیں۔

اسی طرح ملتان کے نشتر ہسپتال سے مبینہ طور پر 500 مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی نے بھی بلوچ قوم کو مجموعی طور پر ہیجان و اذیت کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے کہیں ان مسخ شدہ اور بے گور و کفن لاشوں میں ان کے پیاروں کی لاشیں تو شامل نہیں جنہیں قتل کر کے وہاں پھینک دیا گیا ہو۔ کیونکہ کراچی اور دیگر علاقوں میں لاپتہ بلوچ فرزندوں کی ایسی لاشیں پہلے بھی ملی ہیں جہاں ان کے جسموں کو چیر پھاڑ کر ان کے جسم کے اندرونی اعضا نکالے گٸے ہیں اور انہیں بے دردی سے پھینکا گیا ہے، ایسے میں اجتماعی لاشوں کی چیرپھاڑ سے بین الاقوامی آرگن ٹریڈ کے خدشات بھی سامنے آرہے ہیں کیونکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں لاپتہ، قیدی و مجبور انسانوں کے جسمانی اعضاء کا کاروبار کوئی سوالیہ نشان نہیں ہوتا جس سے عالمی مافیاز کےلیے زندہ و مردہ انسان کے اعضاء کی خرید و فروخت سے دولت اکٹھا کرنا اور زر سے متعلق اپنی لامحدود خواہش کےلیے کچھ بھی کرنا تعجب کی بات نہیں۔ خدشہ یہی ہے کہ بلوچستان کے ساحل و وساٸل کی طرح اب انسانوں کے جسموں کو بھی چیر پھاڑ کے نوچ کر عالمی مافیاز کو بیچی جا رہی ہیں جو کہ تکلیف و اذیت اور ظلم و جبر کی انتہا ہے۔

اس کرب و اذیت کو حکومتی دروغ گوٸی، نشتر ہسپتال واقعہ پر انتظامیہ اور حکومتی بیانات میں تضاد اور ناشناخت کردہ لاشوں کے دفن کرنے یا میڈیکل اسٹوڈنٹس کے حوالے کرنے سے متعلق ماہرین کی راٸے کو مزید تقویت ملتی ہے۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ ایک ہی ہسپتال کے چھت پر سینکڑوں انسانوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور اس طرح توہین و بے حرمتی اجتماعی طور پر پوری انسانیت کی توہین و تذلیل ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی ان لاشوں کی شناخت میں حکومت و ہسپتال انتظامیہ کی ناکامی پس پردہ بہت بڑے انسانی سانحے کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ فقط سینکڑوں لاشوں کی توہین و تذلیل اور بے حرمتی نہیں بلکہ ان لاشوں کے ہزاروں ورثا اور دوست و احباب کے انسانی جذبات سمیت پوری انسانیت کی بےشرفی و تذلیل اور بدتہذیبی و درندگی کی بہت بڑی مثال ہے حکومتِ وقت و ہسپتال انتظامیہ اس جرم کے مرتکب ہیں۔ یہ لاشیں بلوچ، سندھی، مہاجر و پشتون سمیت کسی بھی محکوم طبقہ و قوم کے افراد کی ہو سکتی ہیں جو کہ اس وقت حاکموں کے اجتماعی جبر و درندگی کا شکار ہیں ۔

اسی لیے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن حکومتِ وقت سے مطالبہ کرتی ہے کہ حکام جھوٹ اور دروغ گوٸی کے بجاٸے انسانیت کے ناطے ان تمام بے گور و کفن لاشوں کا ڈین این ٹیسٹ کراٸیں اور ان لاشوں کی اس طرح بے حرمتی پر ایک جوڈیشل انکواٸری کمیشن تشکیل دے کر اس واقعے میں ملوث لوگوں اور اداروں کے خلاف تحقیقات کریں اور انسانیت کی اجتماعی توہین و تذلیل میں ملوث لوگوں اور اداروں کے خلاف کاررواٸی کریں ۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سی ٹی ڈی لگاتار جعلی مقابلوں میں لوگوں کو ماوراٸے آٸین قتل کر رہی ہے جن میں سے اکثریت کی شناخت بعد میں لاپتہ افراد کے طور پر کی جاتی ہے جو کہ سالوں سے لاپتہ ہیں۔ اس قاتل ادارے کو فوری طور لگام دے کر بلوچستان سے بے دخل کر دیا جاٸے اور لاشوں کی شناخت کےلیے ایک فارنزک لیبارٹری کا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جاٸے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.