جدلیاتی و تاریخی مادیت

تحریر: سجاد بلوچ

سائنس، تحقیق و تفتیش اور جانکاری کےلیے تجرباتی سطح پر کائنات کی گہرائی میں جھانکنے کا نام ہے۔ سائنس اس وقت تک کسی شے کو حق و سچ نہیں سمجھتی جب تک دریافت کرتے وقت اس چیز کو مختلف تجربات و مشاہدات سے نہ گزاری جائے، اور ہر تجربے میں وہ یکساں نتیجہ دے تب جا کر سائنس اسے برحق تسلیم کر لیتی ہے۔ سائنس، سچائی کا دوسرا نام ہے۔ سائنس اس کائناتی میکنزم کو سمجھنے کا مادی آلہ ہے جس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سائنسی اور مابعد الطبیعیاتی علم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سائنس عقیدوں، روایتوں اور بشارتوں پر خوب تحقیق کرتی ہے اور انہیں حق یا باطل قرار دیتی ہے مگر خود کو کبھی ان میں ڈھلنے نہیں دیتی جبکہ مابعد الطبیعاتی علم ان عقیدوں، روایتوں و پیش گوئیوں کے ذریعے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ حق و سچ کی کھوج میں سائنس کبھی کبھار اپنی ہی تھیوریز کی بھی نفی کرتی ہے، سائنس ہمیشہ حتمی نتیجے تک پہنچنے کی خاطر ٹھوس و معقول دلائل کی تلاش میں رہتی ہے بھلے اس کوشش میں اسے اپنے پچھلے جمع کردہ غیر واضح ثبوتوں و غیر منطقی دلائل کی نفی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ سائنس ہمیشہ تحقیق و تجربے کی راہ پر گامزن رہتی ہے۔

مادی دنیا کو بہتر انداز میں سمجھنے کےلیے انسان کے پاس سائنس سے اچھا ضابطہ اور ہتھیار ہے ہی نہیں۔ سائنس ہمیشہ سے ہمیں یہ کہتی آ رہی ہے کہ “مادہ نہ کبھی مکمل طور پر فنا ہو سکتا ہے نہ ہی اسے تخلیق کیا جا سکتا ہے“، فزکس کے مطابق مادہ ہمیشہ موجود رہتا ہے بھلے اس کی حالت میں وقت و حالات کے مطابق تبدیلیاں ضرور پیدا ہوتی ہیں مگر مادہ کے اندر ایٹموں میں مکمل طور پر فنا ہونے کے امکانات بلکل ناپید ہیں۔ میٹر (مادہ) کیا ہے؟ میٹر وہ چیز ہے جو وزن رکھے، جگہ گھیرے یا دائمی حرکت میں رہے۔ اس سے متعلق ہمارے ذہن میں بہت سے سوالات ابھرتے ہیں کہ آیا ہمارے ارد گرد ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو وزن بھی رکھتی ہیں اور جگہ بھی گھیرتی ہیں مثلاً: درخت، گاڑی، کرسی، پین، کتابیں کیا ان سب چیزوں کو میٹر کہا جاتا ہے؟ جی ہاں یہ سب چیزیں میٹر ہیں اور یہ تمام کے تمام چیزیں ایٹم کے چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنی ہوئی ہیں اور ان ایٹموں کے اندر مزید چھوٹے چھوٹے ذرات پائے جاتے ہیں جنہیں الیکٹرون، نیوٹرون اور پروٹون کہا جاتا ہے حتیٰ کہ انسانی جسم کے خلیے بھی مختلف ایٹموں کے ایک ساتھ ملنے سے وجود میں آئے ہیں۔ سو، اس جہاں میں جتنی بھی چیزیں ہیں خواہ وہ نامیاتی ہوں یا غیر نامیاتی سب کے سب ایٹم سے بنی ہوئی ہیں اور ایٹم ازخود میٹر کا ایک جزو لاینفک سمجھا جاتا ہے۔

مادی اشیاء کا مطالعہ اور انہیں سمجھنے کےلیے جو طریقہ کار استعمال ہوتا ہے اسے جدلیاتی مادیت کہا جاتا ہے۔ جدلیاتی مادیت کے اساسی قوانین کے مطابق مادے کو اس کے آس پاس کے ماحول سے بیگانہ کرکے نہیں دیکھنا چاہیے کائنات میں جتنی بھی مادی اشیاء ہیں وہ سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ایک دوجے پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ کسی خاص مقصد کے حصول کےلیے نیچر میں موجود چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنے سے منطقی نتائج کے برعکس بدترین نتائج سامنے آئیں گے۔ مثلاً: انسانی جسم کو ہی دیکھ لیں انسانی جسم میں موجود تمام اعضاء ایک ایسے پراسیس کے ذریعے چل رہے ہیں جہاں ایک عضو کے ورکنگ سسٹم کو دوسرے اعضاء کی ورکنگ کی اشد ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی معدے کو خوراک کے ہاضمے کےلیے آکسیجن کی اشد ضرورت ہوتی ہے، دل ہی وہ عضو ہے جو آکسیجن کو خون کے ذریعے معدے کے خلیوں تک پہنچا کر اس کی ضرورت پوری کر دیتا ہے، اور یہ بھی ہے کہ کسی ایک عضو کے ناکارہ ہونے سے نہ صرف دوسرے اعضاء کی ورکنگ پاور میں سُستی آجاتی ہے بلکہ مکمل طور پر اس سے تمام تر انسانی جسم میں بھی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مادی اشیاء کو ان کے ارد گرد کے ماحول سے کاٹ کے دیکھنا جاہلیت ہے۔ اور اکثر بورژوا اہلِ دانش مادے کا مطالعہ کرتے ہوئے اشیا کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرکے پرکھتے ہیں، اسی وجہ سے وہ ہمیشہ انتشار و تذبذب میں رہتے ہوئے کبھی منطقی نتائج تک نہیں پہنچ پاتے۔

جدلیاتی مادیت پسندوں کے مطابق یہ دنیا مادی ہے اور اس کے برعکس ہم اکثر و بیشتر بورژوا اہلِ علم و مذہبی پیشواؤں اور خیال پرستوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ یہ دنیا کسی دیوہیکل یا آفاقی طاقت کی کار فرمائی ہے اس کے بر عکس مارکسی نظریات کے مطابق دنیا فی الحقیقت مادی ہے، دنیا میں حوادث و واقعات مادے کی مختلف شکلیں ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک اور اثر انداز ہوتے ہوئے بالآخر ارتقائی عمل کا موجب بن جاتے ہیں، خیال پرست لوگ اس بات کے کہنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ یہ دنیا محض چند دنوں کی ہے، ہم سب یہاں مہمان بن کر آئے ہیں اور جلد ہی یہاں سے فنا ہو جائیں گے۔

مگر انسانی جسم کے کیمیائی عناصر کائنات میں موجود رہتے ہیں اور مسلسل ایک سائیکلک پراسیس میں ”قدیم کے تباہ ہونے اور نٸے کے پیدا ہونے” والے عمل کے ذریعے چل رہے ہوتے ہیں مثلاً: نائٹروجن، پوٹاشیم جیسے عناصر جو ضرورت پڑنے پر مردہ انسانوں کے جسم سے درختوں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور درختوں سے واپس انسانوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اس بات میں بھی بالکل سچائی نہیں ہے کہ انسان کے مرنے کے ساتھ ساتھ یہ دنیا بھی ایک دن فنا ہو جاتی ہے یہ اس لیے بھی غلط فہمی اور محض ابہام پرستی ہے کیونکہ دنیا تو مادی شے ہے ہم نے یہ بھی جانا کہ مادہ کبھی بھی فنا نہیں ہوسکتا محض وقت و حالات کی بدلتی صورت حال کے مطابق اس میں تبدیلیاں ضرور رونما ہوتی ہیں جو مادے کی حالت کو تبدیل کرنے کےلیے لازمی ہوتا ہے۔ بورژوا اہلِ دانش و مذہبی پیشوا دنیا کے فنا ہونے کا ایک اور جواز فراہم کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب انسان دوسرے انسان کا خونی دشمن بن جائے گا مثلاً سماج میں یک دم جنگ و جدل کے گہرے سائے پھیلتے جائیں گے۔

اگر اس بات کو تاریخی مادیت کی کسوٹی پر پرکھ کر اس کا جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سماج میں اس وقت جنگ و جدل کے واقعات شدت اختیار کرتے ہیں جب سماج میں عدل و انصاف اور برابری کا رواج ختم ہو جائے اور انسانی سماج طبقات، ذات، پات میں بٹ جائے مثلاً: جمہوریت کی جگہ آمریت لے لے، اشتراکیت کی جگہ ذاتیت لے اور کمیونزم کی جگہ جاگیرداریت و سرمایہ داری، تب جا کر سماج مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے(سماجی تاریخ کا اس نظریے سے جائزہ لینے کو تاریخی مادیت کہا جاتا ہے) مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جنگی ماحول سے دنیا مکمل طور پر فنا ہو جائے گی، یہی تو وہ مرحلہ ہے جو ایک سماجی نظام کو دوسرے سماجی نظام میں ڈھلنے کےلیے مجبور کر دیتا ہے۔ اور یہیں سے دنیا کے مادی و تغیراتی وجود کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر دور میں سماج اپنی شکلیں بدلتا رہتا ہے، اور مسلسل تبدیلی کے عمل سے دو چار ہے۔ کبھی غلام داری سماج میں تو کبھی جاگیردارانہ سماج میں کبھی کیپٹلزم میں تو کبھی سوشلزم اور کمیونزم میں۔ یہ پراسیس چلتا رہتا ہے مادے کے مکمل فنا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تاریخی مادیت کے مطابق کوئی بھی تاریخی سماجی مسئلہ خواہ وہ بیرونی ہو یا اندرونی ازلی و ابدی نہیں ہوتا وقت و حالات کے مطابق سماجی مسائل سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں اور ان سماجی مسائل کا حل بھی مادی اصولوں میں پیوست ہوتا ہے۔

مادہ مسلسل تبدیلی و تغیر پذیری کے عمل سے گزر رہا ہے اور معاشرہ بھی مسلسل حرکت میں ہے، یہ کبھی کسی سماجی نظام میں مستقل سکونت اختیار نہیں کرتا۔ آج جہاں ایک طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان اور بڑے بڑے سرمایہ دار و بورژوا دانشور اور لبرلز مسلسل یہی پروپیگنڈا گھڑتے جا رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا کی آخری فتح ہے اور یہ نظام ابدی ہے اس کے علاوہ کوئی سماجی نظام نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سماج کسی بھی نظام میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے منجمد نہیں پڑتا، بلکہ ترقی کرتا رہتا ہے۔
کیا وہ تاریخی مادیت کے اصولوں کے انکاری ہیں؟ کیا وہ جدلیاتی مادیت کے ان اساسی قوانین سے بھی مبرا ہیں کہ ہر مادی شے کے بطن میں اس کی ضد موجود ہوتی ہے اور ان متضاد اضداد کی تکرار سے ایک کی نفی دوسرے کے وجود میں آنے کا موجب بنتی ہے، یہی تضاد کا قانون ہے کہ اشیا ہر وقت اپنی اضداد میں بدلتی رہتی ہیں اور انہی متضاد اضداد کی کشمکش کی وجہ سے معاشرے انقلابی جست لگاکے نت نئی شکلیں اختیار کرتے ہیں۔ تاریخی مادیت کی رو سے ارتقائی عمل کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملے گا کہ غلام داری سماج کا جاگیرداری سماجی نظام میں ترقی و تبدیلی کا بنیادی عنصر غلاموں اور آقاؤں کے درمیان طبقاتی کشمکش تھا جو بالآخر آقاؤں کی نفی کرتے ہوئے سماجی نظام کو ایک قدم آگے بڑھایا۔

اگر بیرونی اثرات کے دباؤ سے تبدیلی و تغیر پذیری کا یہ عمل رک بھی جائے تو پھر بھی اُس شے/سماج میں اندرونی تضاد (حرکت) قائم رہے گا اور وہ مادے کو مسلسل تبدیلی کے مراحل سے گزارے گا۔ سائنس بھی کُل کائناتی جمودی مظہر کو کبھی قبول نہیں کرتی ۔ سائنس مادے کا مطالعہ بھی اس کی حرکی حالت میں ہی کرتی ہے۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی تبدیلی کا عمل ہے۔ تو عین ممکن ہے کہ موجودہ فرسودہ سرمایہ دارانہ سماجی نظام بھی گل سڑ جائے گا اور اس کے بطن سے ایک نیا سماجی نظام(سوشلسٹ نظام) جنم لے گا جو اشتراک و تعاون کے عمل سے حرکت کرتا رہے گا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مادی دنیا سوشلزم و کمیونزم کے دائرے میں بھی مقید نہیں رہے گی اگر ان سماجی نظاموں کے پیداواری رشتوں میں دراڑ پڑ گئی تو انسان ان سے بھی زیادہ بہتر سماجی نظامیں کھوجنا شروع کردے گا۔ تو عین ممکن ہے کہ سماج اُسی نظام میں ڈھل جائے گا کیونکہ نیچر کبھی تباہ ہوتی ہوئی چیز کا ساتھ نہیں دیتی بلکہ اس شے کو زیادہ اہمیت دیتی ہے جو ترقی کے اصولوں پر ہو۔

آج دنیا بھر میں جہاں ایک طرف بڑے بڑے سرمایہ دار اور ان کے گماشتے سماجی ارتقائی عمل کو روکنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں مگر ان کے مقابلے میں سماجی ارتقائی عمل کو دوام بخشنے کی خاطر دنیا بھر کے محکوم و مظلوم بھی مادی قوانین کو حق و سچ مان کر ان پر عمل پیرا ہوکر میدان میں کھڑے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام آج اس قدر کمزور و ناتواں ہوگیا ہے کہ اپنی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کےلیے ابہام پرستی و خیال پرستی کا زنگ آلود ہتھیار استعمال کر رہا ہے، محکوموں کو چاہیے کہ مزید خود کو مادی انقلابی اسلحوں سے مسلح کرکے آگے بڑھیں اور ان تمام رکاوٹوں و دیواروں کو بغیر مصالحت کے انقلابی جدوجہد کے ذریعے کچل دیں۔

مزاحمت زندگی
مصلحت موت

Leave a Reply

Your email address will not be published.