بلوچ نسل کشی پاکستان کے مالیاتی و سامراجی مفادات کے تناظر میں ہورہی ہے: بی ایس او

مرکزی ترجمان: بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن کے مرکزی ترجمان نے مستونگ میں ہونے والے افسوسناک دھماکے کی مذمت میں جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک عالمی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کی منشا و سرپرستی کے ساتھ بلوچ سماج میں مذہبی انتہا پسندی و رجعت پسندی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ اربوں ڈالر کے اس دھندے میں عسکری اشرافیہ موت کا کاروبار کرتی ہے اور ہر طرح سے لوکل آبادی کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔

اس وقت عالمی قوتوں کو ایک زر خرید ریاست کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنی پراکسی جنگ کیلئے بنیادیں بنا کر پورے خطے میں بدامنی اور دہشت کے زریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ اس مقصد کیلئے تاریخی طور پر پاکستان نے بلوچستان کی دھرتی کو پیش کیا ہے، جہاں انہیں محفوظ پناہ گاہوں سمیت بے تحاشا سرمائے سے بھی نوازا گیا ہے۔

پاکستان کا ہمیشہ سے بلوچستان کے ساتھ رشتہ نوآبادیاتی رہا ہے جس میں بلوچستان کے ذخائر کا استحصال کیا گیا، چاہے وہ ہماری زمین ہو، ساحل ہو یا آبادی۔ آج بھی یہ ریاست اپنے وحشی عزائم اور سامراجی مفادات کیلیے بلوچستان میں نسل کشی کررہی ہے۔

برسوں سے بلوچستان کے اندر  مذھبی مدارس کا ایک مضبوط نیٹ ورک بچھایا گیا ہے جہاں سے نئی ریکروٹمنٹ ہوسکے اور محفوظ ٹھکانوں کے طور پر بھی استعمال ہوسکے، اس کے ساتھ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری سے یہاں دہشت گردوں کی ایک فوج تعمیر کی گئی جو نہ صرف لوکل ڈیتھ سکواڈز کیلئے کام میں لائی جاتی ہے بلکہ عالمی پراکسی وار میں بھی ملوث رہتی ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ عرصہ قبل رٶف بلوچ کا بے بیہمانہ قتل بھی اسی منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ آج مستونگ میں مذھبی دھشتگردوں نے ایک اور بد ترین واردات کرکے 50 سے زاٸد بلوچ گھرانوں کو اجاڑ دیا۔ یہاں پر بنیادی سوال یہ ہے کہ تمام تر مذھبی انتہاٸی پسندی اور لشکر جھنگوی، پنجابی طالبان، جیش محمد جیسے دھشتگرد تنظیموں کی بنیاد پنجاب میں پڑی اور ان کی سرپرستی و قیادت بھی وہیں سے ہوتی ہے لیکن جنگی اکھاڑہ بلوچستان اور پختون خواہ کے علاقے بنتے ہیں۔

بلوچستان کی قومی تحریک کو کچلنے اور یہاں کے سیاسی و ثقافتی ماحول کو تبدیل کرکے پیش کرنے کیلئے اولین دنوں سے مذہبی فرقہ وارانہ فسادات کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے، اسی اثنا میں ہزارہ نسل کشی کی گئی اور اب بریلوی، دیوبندی، زکری اور مسلمان کا مسئلہ لانے کی کوشش ہورہی ہے۔

ہمہ وقت بلوچ قوم کو ایرانی ریاست کی جانب سے جبر و تشدد کا سامنا ہے، جو کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے، وہیں سندھ میں آباد سندھی اور بلوچوں کو ڈکیت کہہ کر مارا جاتا ہے جو اپنے حقوق کی جدوجہد کررہے تھے۔ سکرنڈ میں نہتے شہریوں پر دھاوا بول کر لاشیں گرانا اسی کا شاخسانہ ہے۔ ہر جگہ بلوچ غلام ہے اور اس کے خلاف جدوجہد میں مصروف عمل ہے لیکن مختلف ناموں سے بلوچ قوم کی جدوجہد کو دبانے کی کوشش ہورہی ہے۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ لشکر جھنگوی کے رہنما رمضان مینگل، شفیق مینگل اور دیگر مذھبی انتہا پسندوں کو ریاستی اداروں نے ہمیشہ بلوچ قوم کے خلاف بطور ڈیتھ اسکواڈ استعمال کیا ہے اور ان کی منصوبہ بندی کے ساتھ پرورش و حفاظت کی ہے۔ بدقسمتی سے بلوچ کے خلاف رچاٸے گٸے ان منصوبوں کے خلاف کوٸی باقاعدہ تحریک چلانے اور بلوچ کو تحفظ دینے والے تمام کردار پارلیمانی و غیر پارلیمانی جماعتیں ناکامی کا شکار ہوٸی ہیں۔ ان منصوبوں کو روکنے اور بلوچ کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے ایک عوامی سیاسی تحریک کی اشد ضرورت ہے جو کہ ان تمام منصوبوں اور کرداروں کو روکنے اور بلوچ کو تحفظ دینے میں کارگر ثابت ہوگی۔ ایک سیاسی مزاحمتی تحریک کے علاوہ بلوچ قوم کو اس اجتماعی نسل کشی سے نجات دلانا کسی بھی اور طرح سے ممکن نہیں رہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.