بی ایس او کے یومِ تاسیس کے موقع پر شال زون کی جانب سے تقریب کا انعقاد۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری شال زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون کی جانب سے “بی ایس او کے 56 واں یوم تاسیس” کے مناسبت سے زیر صدارت زونل صدر سنگت ظہور بلوچ ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں مہمان خاص بی ایس او کے مرکزی سینیئر وائس چیئرمین سنگت جیئند بلوچ  تھے۔ جبکہ کاروائی زونل صدر نے چلائی۔

پروگرام کا باقاعدہ آغاز بی ایس او کے عظیم کاروان کے ساتھ جڑے ان تمام انقلابی شہداء کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی سے کی گئی جنہوں نے اپنی سر زمین اور اپنے نظریات کی دفاع میں اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی سینیئر وائس چیئرمین سنگت جیئند بلوچ  نے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شال زون کو بی ایس او کے 56 ویں یوم تاسیس پر کامیاب تاسیسی پروگرام انعقاد کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مزید مرکزی واٸس چیٸرمین نے کہا کہ یقیناً یہ ایک کامیاب معجزے سے کم نہیں کہ بی ایس او آج بھی اپنے تاریخی کردار کو نبھاتے ہوئے بلوچ قومی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے، مزید  ساتھیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ سیاسی کارکن فرسودہ عقیدت مندی سے نکل کر تنقیدی طور پر اپنے سیاسی تجربات کا جائزہ لے کر اپنی جدوجہد کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرکے ہی بلوچ قوم کو اس قومی و طبقاتی جبر سے نجات دلا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں بیشتر مظلوم قوموں نے اپنی مظلومیت سے نجات پانے کے لیے خود کو سیاسی طور پر منظم کیا اور ایک مضبوط قوت بن کر قبضہ گیر و دوسرے بیرونی طاقتوں کا سامنا کیا اور اسی طرح بلوچ قوم کی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا جائے تو بی ایس او وہ واحد سیاسی تنظیم نظر آتی ہے جو ایک طویل عرصے سے بلوچ طلباء کو منظم کرنے اور انہیں وسیع تر قومی کاز کے لئے راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ جہد مسلسل کے فلسفے پر کوشاں ہے۔

 شال زون کے ساتھیوں  نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‏بے شمار آفتیں آئیں، اندرونی اور بیرونی تخریب کار قوتوں نے ہر طرح کے ممکن حربے استعمال کیے اس مادر علمی اور اس کی نظریاتی اساس کو نیست و نابود کرنے کے لیے، لیکن اس مشعل اور ستارہ کی روشنی آج بھی زندگی اور مزاحمت کی علامت کے طور پر ظلم تلے اندھیری رات میں روشن ہے۔

آج کا بلوچ نوجوان نسل بی ایس او سے شعوری طور پر آشنا ہے تو یہ ان عظیم جہدکاروں کے سبب ہی ممکن ہوا ہے۔ اس لیے یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھیں اور اس کاررواں کو مزید آگے بڑھائیں۔ آج بلوچ سماج ہر طرف سے نوآبادیات اور ان کے آلہ کاروں سے گھِرا ہوا ہے، اور بلوچ سیاست نظریاتی حوالوں سے کافی پراگندہ ہوچکی ہے، اور بلوچ عوام اس سیاسی بحران کے باعث کسمپرسی اور درپدری کی کیفیتوں میں زندہ ہے، تو اس لیے آج بی ایس او کے ہر کارکن پر یہ فرض ہے کہ وہ ان سماجی تبدیلیوں سے آشنا ہوکر اپنی جدوجہد کو روایتی اور فرسودہ ڈگر سے نکال کر جدید خطوط پر استوار کرکے اس مایوسی کو شکست دینے میں بطورِ کیڈر اپنا کردار ادا کریں۔ 

ساتھیوں نے عہد کرتے ہوٸے کہا کہ بی ایس او نے بلوچ سیاست کو نہ صرف انقلابی و شعوری جست دیا بلکہ اس مادر علمی نے بلوچ تحریک کو قومی جدوجہد کےلیے پارٹی و دیگر اداروں کی شکل میں مضبوط ساٸنسی و انقلابی اوزار بھی فراہم کیے۔ قومی محکومی کے خاتمے کےلیے اس انقلابی تنظیم اور اس کے نظریات کو مزید توانا کرنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.