زندان میں علم بانٹتا نوجوان

تحریر: رضوانہ بلوچ

زاکر مجید بلوچ نے ایک بار سندھی قومپرستوں کے منعقد تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ”یہ ریاست کبھی نہیں چاہے گا کہ بلوچ اور سندھی تعلیم حاصل کریں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب یہ تعلیم حاصل کریں گے جیٹ طیارے چلانا سیکھ جائیں گے تو ہم پر ہی برس پڑیں گے۔“ اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ طویل عرصے سے ریاست پاکستان بلوچ پر یلغار کرتا ہے تو اس کے تعلیم یافتہ طبقے کو زیادہ نقصان دیتا ہے۔ طلبہ ہی وہ پرت ہیں جن سے ریاست کے زندان بھرے ہوٸے ہیں اور بلوچ طلبہ ان میں جبر و اذیت سہہ رہے ہیں۔

جب ایک انسان قلم اٹھاتا ہے تو وہ قطعاً ان ہاتھوں سے جرم کرنے کا سوچتا ہی نہیں ہے۔ اسی طرح ایک کم عمر نوجوان حسنین بلوچ جو کہ 28 نومبر 2018 کو اپنے ہی گھر سے اٹھایا گیا اور کم عمری میں اس پر بے بنیاد الزامات لگا کر اسے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔

ذرا سوچیے!
چار سال سے وہ ان سلاخوں کے پیچھے کیا کرتا پھر رہا ہے ؟؟
اس حقیقت سے نا واقف لوگ ذرا اپنی آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کیا ایک مجرم کبھی قلم اٹھا سکتا ہے؟
کیا ایک مجرم کسی کو شعور کی طرف لا سکتا ہے؟
کیا ایک مجرم اتنا شعور یافتہ ہو سکتا ہے؟

کیا ایک دہشت گرد میں قلم اٹھانے کی اہلیت ہو سکتا ہے ؟
کیا ایک دہشت گرد کو کتابوں سے محبت ہو سکتی ہے؟ ہم نے تو دہشتگردوں کو سر دھڑ سے الگ کرکے اس سے فٹ کھلنے والے مناظر دیکھے ہیں مگر انہیں لکھت پڑھت سے جڑا نہیں دیکھا۔

اس انسان کی سوچ اور جدوجہد کو تو دیکھو کہ اندھیری سلاخوں اور وحشت ناک عقوبت خانوں کے پیچھے بھی وہ لوگوں کو روشنی کی طرف لا رہے ہیں ۔
سلاخوں سے باہر رہنے والے لوگ بھی شاید بہت کم ایسی سوچ رکھتے ہونگے۔ سلاخوں سے باہر رہ کر بھی ہم لا شعوری کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

یہ وہی کمسن بچہ ہے جو ابھی خود تعلیم حاصل کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے ہم عمر بہت سے دوستوں کو اسی طرف لے جا رہا تھا جہاں سے شعور اور زانت کا راستہ ہے۔

چند ماہ قبل جب میں حسنین بلوچ سے ملنے گئی تو مجھے حیرانی ہوئی اس کی سوچ پر جب وہ مجھ سے گفتگو کر رہے تھے تو مجھے ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ اس کے شعوری گفتار سے مجھے یہ علم ضرور ہوا کہ وہ ایک مثبت اور شعوری انسان ہے۔ کیونکہ منفی سوچ رکھنے والے کبھی شعور یافتہ نہیں ہو سکتے اگر وہ کچھ اچھا سوچ بھی لیں تو اس کا اظہار نہیں کر پاتے اور نہ ہی ان میں جینے کی تمنا اور امید کا احساس باقی رہتا ہے۔

منفی سوچ رکھنے والے یوں جیل میں اپنے شعور کا عطیہ نہیں دیتے۔ وہ دن اس کے پڑھنے لکھنے کے تھے جب اسے رات کے اندھیرے میں ماں کی آغوش سے اٹھا کر کال کوٹھڑی میں بند کیا گیا۔ اس کالی کوٹھری کو بھی اس نے اپنی شعوری سوچ سے روشن کر دیا۔

چار سال سے مسلسل کتابوں کے ساتھ جڑ کے رہنا اور اندھیرے جیل کے اندر ایک تعلیمی ماحول بنانا یہ ایک دہشت گرد کبھی نہیں کرسکتا۔ ایک کتاب دوست انسان ہی ایسے شعور کا عطیہ کر سکتا ہے۔

قید خانے میں انسان ذہنی اذیتوں کا شکار رہتا ہے۔ یہ معصوم اپنے اذیتوں کو دبا کر کتابوں کی طرف ماٸل ہو گیا ہے۔ کتابیں پڑھ کے اور پڑھا کر یہ باقی تمام قیدیوں کو بھی اذیتوں کی طرف جانے سے روک رہا ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ جیل کے اندر تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم دلوانا۔

میں جب حسنین سے ملی تو وہ اپنی باتوں سے اور سوچ سے اپنی عمر سے کافی بڑھا ظاہر ہو رہا تھا۔ اور وہاں ایک مختصر سی ملاقات میں اس نے مجھ سے کافی باتیں کیں اپنی تعلیم کا بتایا کہ اس نے یہاں سے نیا کیا کیا سیکھا ہے اور اب وہ کیا مطالعہ کر رہا ہے۔ اس کے پاس علمی باتوں کے علاوہ اور کوئی باتیں نہیں تھیں۔

ہم ایسا بھی بول سکتے ہیں کہ یہ بھی ایک خوشبختی ہے کہ حسنین کے قدم جیل میں پڑتے ہی کراچی جیل کے قوانین بدلے گئے ، مئی 2019 میں صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والے قانون سندھ پریزن اینڈ کریکشنل فیسیلیٹیز ایکٹ پر سندھ حکومت کی جانب سے یہ عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ کہ قیدیوں کو اذیت دینا بند کیا جائے انھیں تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔

اور اب اس نے اپنی جدو جہد کو اور بھی تیز کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ باقی قیدیوں کو بھی تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے ۔

قید میں جتنی سہولتیں ہوں جتنی آسائشیں ہوں لیکن ہے تو وہ قید خانہ، ہماری تمام تر علم دوست، سوشل ایکٹیوسٹس اور وکلا سے اپیل ہے کہ وہ ایک کتاب دوست بے گناہ انسان کی آواز بنیں اور اسے انصاف دلانے میں اس کا ساتھ دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.