اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور بلوچ طلباء

تحریر: سہیل بلوچ

ورلڈ بینک کے رپورٹ 2019 کے مطابق بلوچستان میں غربت کی شرح 42.2 فیصد دیکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں 40 فیصد آبادی ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو کہ انتہائی غریبی میں پیٹ پالن کر رہے ہیں ایسے میں بلوچستان میں والدین اپنے بچوں کو محنت مزدوری کرانے پر مجبور ہیں جن کی عمریں پڑھنے کی ہیں وہ اسی بود و باش کی تجسّس میں بلوچستان کے 46٪ بچے تعلیمی میدان میں حصہ تک نہیں لے پاتے ہیں۔

نوجوان بازوؤں کی طاقت، سیزنڈ دماغوں کی پلاننگ اور ریاست کی درست ترجیحات مل کر کسی ملک کو ترقی کے بام عروج پر جست بھر میں پہنچا سکتی ہے۔ طاقت، پلاننگ اور درست ترجیحات ہی وہ اساس ہیں جن کی بنیاد پر قومیں ترقی کرتی ہیں مگر ریاستِ پاکستان میں شروع دن سے ایوب سے لیکر یحییٰ، بھٹو، ضیاء اور شہباز شریف تک طلباء سے خوفزدہ رہے ہیں اور مسلسل طلباء یونین پر پابندیاں عائد کیے آرہے ہیں اور بے ہودہ نصاب کے ذریعے طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو مسمار کرتے ہوئے آئے ہیں جو کہ تاحال جاری ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف رجوع کریں تو دیگر جامعات کی طرح اسلامیہ یونیورسٹی بھی بلوچستان کے طلباء کو دیوار سے لگانے میں آگے آگے ہے اور روز نت نئے ہربوں سے طلباء کو مسلسل ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی، ایڈمنسٹریشن کی معتصبانہ رویے، اور مخصوص نشستوں پر آنے والے طلباء سے ٪50 فیسوں کی مانگ شامل ہیں جس پر بلوچستان کے طلباء نے احتجاجی مظاہروں کی شکل میں ردعمل دکھایا مگر انتظامیہ کی طرف سے کوئی مثبت رویہ دیکھنے کو نہیں ملا اور تاریخ پہ تاریخ مانگتے اور ٹرخاتے رہے۔

یاد رہے 2013 میں آغاز حقوقِ بلوچستان کے تحت پنجاب کے مختلف جامعات میں بلوچستان کے طلباء کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی گئی تھیں جن کی تمام تر اخراجات حکومت خود برداشت کرے گی مگر پہلی بار حکومتی معاہدے کی پامالی جامعہ بہاؤ الدین زکریا ملتان کی طرف سے کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں طلباء کی شدید ردعمل سے دوبارہ بحالی کا اعلان پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور نے کیا تھا۔
مگر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور حکومتی معاہدے کے باوجود بھی مخصوص نشستوں پر آنے والے طلباء سے ٪50 فیسوں کی مانگ کررہی ہے جو کہ سراسر غیر قانونی اور حکومتی فیصلوں کی پامالی ہے جس کے نتیجے میں فال 2021 سے لے کر اب تک اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بلوچستان کے طلباء کا رجحان کم ہوگیا ہے اور طلباء کے اندر ایک عجیب بے چینی نے جنم لیا ہے اگر آج بے چینی دور نہ کی گئی تو کل یہی بے چینی ریاست کی کمزوری بن جائے گی جس پر قابو پانا مشکل ہوگا۔

اسی پاداش میں ایک بار پھر بلوچستان کے طلباء نے 26 ستمبر 2022 بروز پیر کو یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کیا ہے اور تاحال انتظامیہ کی طرف سے کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی مگر شہید حمید بلوچ کے ورنا اپنی مزاحمتی اسلحوں سے لیس ظالموں کو شکست دینے کو تیار بیٹھے ہیں اور جائز مطالبات کو منوانے تک اپنی جدوجھد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تاریخ میں بہت سے فرعون آئے اور چلے گئے مگر جیت ہمیشہ حق کی ہوئی ہے اور مزاحمت کار ہمیشہ سرخرو رہے۔ بابا خیر بخش مری کے وارث بلوچ طلباء نے یہ طے کیا ہے کہ وہ برسوں سے طاری ان تاریکیوں کو روند کر روشن سویرا کو اپنے مقدر کا حصہ بنا کر احتجاجی مظاہرہ ختم کریں گے۔

ہاں جیت ہماری ہوگی

جیت حق کی ہوگی

Leave a Reply

Your email address will not be published.