تعلیم سے محروم بلوچستان

تحریر: ایم بی شاہوانی

آج ہـــم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ جو عــــــــلم اور مسابقت کی صدی ہے۔ جہاں تعــــــــلیم کی مرکزی اہمیت ہے۔ جہاں وہی قـــوم سرفراز ہوگی جس کے باشندے پـڑھے لکھے اور جــــدید مہارتوں سے لیس ہوں گے۔

اب چلتے ہیں بلـوچســتان کے  بارے میں جانتے ہیں۔ بلوچســـتان وہ خطہ ہے جو کہ پورے پاکستان کو چـلا رہا ہے۔ سمندری حیات اور معـدنی ذخائر بھی ملکی معیشت میں اہم کـردار ادا کــر رہے ہیں۔ مگر ان خزانوں سے بڑے واجہ کار تو فــــائدہ اٹھا رہے ہیں ، لیکن عام افــراد غـــربت، بے چارگـی کی زندگی گــزارنے پر مجبور ہیں۔ جب بھی بلوچستان کے متعلق سوچتے ہیں ہمیں بیروزگاری, غربت, بد امنی ، پھٹے پرانے کپڑے, خیموں کے نیچے اسکول میں پڑھتے بچے اور اس طرح کے بہت سے خطرناک مناظر دیکھنے میں ملتے ہیں. بلوچستان کے عوام آج بھی ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں۔ بلوچستان اپنی قیمتی معدنیات سے ملکی معیشت کے ایک بڑے حصّے کو سنبھالا ہوا ہے۔ جہاں سے بیش بہا قیمتی ذخائر کے علاوہ ’’سوئی‘‘ گیس جو پورے مُلک میں پہنچتی ہے، لیکن چند شہروں کے علاوہ دیگر شہروں کے باسی، حتیٰ کہ سوئی شہر، جہاں ںسے گیس نکالی جاتی ہے،وہ اس  نعمت سے محروم ہیں۔ تعلیم صحت کے مسائل تو ایک طرف، بلوچستان کے باسیوں کے حالاتِ زندگی میں کوئی بہتری آئی، نہ ترقی و خوش حالی نصیب ہوئی۔

بلوچستان میں تعلیم کا شعبہ مسائلستان بن چکا ہے ۔ اسکولوں میں اساتذہ کی کمی اور جدید سہولیات کے فقدان سے تعلیمی نظام تباہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اقوام کی ترقی کا دارو مدار تعلیم کے شعبے کو ترقی دے کر طلباء کے لئے بنیادی سہولیات کو ممکن بنانا ہے مگر بلوچستان کے اکثر سرکاری سکولوں میں بنیادی تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔

بلوچستان میں سینکڑوں ایسے سرکاری سکول ہیں، جہاں ابھی تک بلڈنگ نہیں ہیں ۔ اور بیٹھنے کو ڈیسک نہیں، یہی نہیں بلکہ مستقبل کے معمار آپ کو ہر روز اپنے حقوق کے لئے روڈوں پر نظر آٸیں گے۔انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ رہائش گاہ کے مسئلے سے لے کر لائیبریریز یا پھر داخلوں میں میرٹ کے قتل تک کے جیسے امور انہیں علمی دنیا سے دور کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ مجبوراً نوجوان نسل تعلیمی اداروں میں کم اور احتجاجی دھرنوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں موجود لوگوں کے لیے سب سے بڑی ضرورت روزگار,صحت اور تعلیم کی ہوتی ہے. سب سے بڑھ کر تعلیم کا مسئلہ نہایت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے. کیونکہ تاریخ میں جن قوموں اور معاشروں نے ترقی کی ہے ان میں تعلیم کا کردار سب سے بڑا ہے. اور دنیا میں اس طرح کے کئی مثالیں موجود ہیں۔

اس جدید ترین دور میں باقی ملک نٸی چیزیں دریافت کررہے ہیں ٹیکنالوجی کے ساتھ چلا رہے ہیں لیکن ایک پاکستان ہے جو کہ یہاں کے ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ میں بنيادی چیزیں اس دور میں پورا نہیں ہیں۔ تعلیم اور شرحِ خواندگی کے لحاظ سے بلوچستان ملک کے تمام وحدتوں سے بہت پیچھے ہے۔ بلوچستان تعلیمی حوالے سے پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 58 فیصد ہے۔ پنجاب میں صورت حال دیگر صوبوں کی نسبت بہتر ہے۔ اور بلوچستان میں 50 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ جب کہ بلوچستان کی 87 فیصدخواتین پڑھنا لکھنا نہیں جانتیں ۔ لڑکیوں کی تعلیم کی بات کریں تو شرح خواندگی مایوس کن حد تک پہنچ چکی ہے، جو صرف 13 فیصد ہے۔

بلوچستان بھر کے مختلف دیہات میں چار ہزار سے زائد ایسے پرائمری اسکولز ہیں، جن کی کوئی عمارت ہی نہیں۔ تعلیم کی مایوس کن صورتِ حال کے سبب بلوچستان میں شرحِ خواندگی بہت کم ہے۔ 22ہزار پانچ سو دیہات میں سے 12ہزار گاؤں تو ایسے ہیں، جہاں سرے سے کوئی اسکول ہی نہیں۔بلوچستان میں دس ہزار کے قریب گھوسٹ اساتذہ ہیں۔ جو تنخواہیں تو اسکولوں کے نام پر لیتے ہیں لیکن اسکولوں کا منہ کبھی نہیں دیکھا ہے. کئی مڈل سکولز تین سے چار استادوں پر ہی چل رہے ہیں اور کئی میں صرف ایک استاد تعلیمی عمل کو یقینی بنانے میں سرگرداں ہیں۔ بلوچستان کے 27 لاکھ میں سے 19لاکھ بچّے اسکول نہیں جاتے۔ ایسے والدین کی تعداد بہت ہی زیادہ ہیں جن کو یہ شعور تک نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو آنے والے زمانے کے اتار چڑھاؤ سے مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم فراہم کریں۔کچھ والدین بچپن ہی سے بچّوں کو چھوٹے موٹے کاموں پر لگا کر ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان  میں بسنے والے بچّوں اور جوانوں کی بڑی تعداد نہ صرف تعلیم کی سہولتوں بلکہ مجموعی طور پر پورا بلوچستان ترقی و خوشحالی کے ثمرات سے یک سر محروم ہے۔

اب چلتے ہیں پنجگور کے  تحصیل پروم اور تحصیل گوارگو کے سکولز کے بارے میں جانتے ہیں نیچے دیے گئے اسکولز کے نام صرف  تحصیل گوارگو کے سکول کے ہیں جو بند پڑے ہیں اور کچھ سکولز میں ٹیچرزڈیوٹی نہیں دیتے ہیں ۔ پرائمری سکول پتندر، پرائمری سکول پژہان پرائمری سکول تاسے ڈن ، پرائمری سکول پیش دپ ،گرلز پرائمری سکول نبی بخش بازار ، بوائیز پرائمری سکول سہتہ کنر، گرلز پرائمری سکول سہتہ کنر، گرلز پرائمری سکول نوراحمد بازار ، بوائیز پرائمری سکول سرآپ اور تحصیل پروم کے بھی زیادہ ترسکولز جو کٸی سالوں سے بند پڑے ہیں .جتنے ٹیچرز آج  ڈیوٹی نہیں دے رہے ہیں ساتھ ساتھ فخر بھی کرتے ہیں کہ کوہی ماہی کا لال ہے۔ جو تنخواہیں بند کریں یا  ٹرانسفر کریں  ان جیسے ٹیچرز کی پشت پناہی ھمارے اپنے سیاسی جماعتوں کے قائدین کرتے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں جو شرم کی بات ہے ۔ یہی ٹیچرز مفت میں تنخواہیں لے کر اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم کی حصول کے لئے پرائیویٹ سکولز کالجز میں داخل کرکے خود کاروبار میں مصروف ہیں ۔

پنجگور کے غریب مظلوم عوام کوتعلیم جیسی نعمت دینے سے محروم کر رہے ہیں ۔لوگ سرکاری سکولوں سے بھاگ رہے ہیں ۔اگر یتیم سکول سے مایوس ہوکر نکلے گا یا تو منشیات کی طرف یا ڈکیتی کی راہ پر گامزن ھوگا کیوں ہم خود اپنے ہی بلوچ قوم کے بچوں کےلئے آستین کا سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ قوم کے بچوں کی مستقبل برباد ہونے کا ذریعہ مت بنیں۔ تعلیم کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔ سب سے اہم  یہی ہے کہ بلوچستان خاص طور پر پنجگور دیہات کے لوگ تعلیم کی اہمیت جان کر اپنے بچوں کو سکولوں کی طرف لائی۔ انہیں تعلیم کے زیور سے آرستہ کریں۔ انہیں حق اور سچ کے مابین تمیز کروا کر تعلیمی آگاہی فراہم کریں۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published.