بلوچ طلباء کی نظریاتی و سائنسی اصولوں پر جدوجہد موجودہ سیاسی بحران پر قابو پانے کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے۔ مرکزی چیئرمین چنگیز بلوچ

رپورٹ: حسیب بلوچ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا چھٹا مرکزی کمیٹی کا اجلاس 20 اور 21 مئی کو زیر صدارت مرکزی چیئرمین چنگیز بلوچ شال میں منعقد ہوا، جب کہ اجلاس کی کارروائی مرکزی سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے چلائی۔ اجلاس میں علاقائی و عالمی صورتحال، سیکریٹری رپورٹ، تنظیم، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کا لائحہ عمل سمیت دیگر تنظیمی امور زیر بحث رہے۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز بلوچستان سمیت دنیا بھر کے انقلابی شہداء کی اعزاز میں دومنٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔

بعد ازاں مرکزی چیئرمین نے تعارفی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا بھر کی سامراجی طاقتیں اپنے سیاسی و معاشی بحرانات، محکوم اقوام کی زیادہ لوٹ مار، ان کے وسائل پر قبضے، اور دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ منڈیوں کی تلاش اور سرمایہ کمانے کی سامراجی عزائم کو دوام بخشنے کے لیے آپسی خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ ایک دفعہ پھر موجودہ سیاسی و معاشی ورلڈ آرڈر تیزی سے بکھر کر مختلف سامراجی مفادات کے گرد از سرنو دھڑے بندیوں کی طرف جا رہی ہے۔ اسی اثناء میں پاکستان جیسے کرایہ کے سیکورٹی اسٹیٹ جو ماضی میں مختلف سامراجی جنگی پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کام کرکے اپنے معاشی و سیاسی بحرانات پر قابو پانے میں کامیاب تھے، آج یہ سامراجی طاقتیں اپنے اندرونی بحرانات کے سبب پاکستان جیسی کرایہ کے سیکیورٹی ریاستوں کا بوجھ مزید برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔

چیئرمین نے مزید کہا کہ جہاں عالمی سرمایہ دارانہ سامراجیت معاشی و سیاسی بحران کے سبب شدید اندرونی اور بیرونی تضادات کا شکار ہے، تو وہیں دوسری طرف یہ تضاد تیسری دنیا کے سامراجی پالن کار ریاستوں میں زیادہ شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آرہا ہے، اور پاکستان آپسی و عالمی تضادات میں الجھ کر شدید سیاسی و معاشی بحرانات کا شکار ہے۔ دوسری طرف دنیا کے دیگر محکوم اقوام سیاسی طور پر نظریاتی و ادارہ جاتی بحرانات کا شکار ہیں، اور مجموعی طور پر کسمپرسی اور مایوس کن حالات میں زندہ ہیں۔ لیکن تاریخ میں مسلسل دیکھا گیا ہے کہ شدید مایوس کن اور نا امید ادوار بھی اپنے بطن سے پر امید و انقلابی حالات کو جنم دینے کا سبب بنی ہیں۔

مزید برآں مرکزی چیئرمین نے کہا کہ آج یہ ہم پر لازم ہوچکا ہے کہ اپنی جدوجہد کو سائنسی اور شعوری بنیادوں پر استوار کرکے کیڈرسازی کے عمل کو تیز تر کریں تاکہ مستقبل میں ابھرنے والے تحریکوں اور انقلابی حالات میں نظریہ اور لیڈرشپ کے بحران پر قابو پاکر بلوچ عوام کے حقوق اور وطن کا دفاع کریں۔

ساتھیوں نے علاقائی و عالمی صورتحال کے ایجنڈے پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام کا اپنی انتہا پر پہنچ کر سامراجی و قبضہ گیری طرز نظام میں تبدیل ہونا ایک ناگزیر امر ہے ، ان سامراجی قوتوں کا قبضہ گیریت کے دوڑ میں عالمی تضادات کا شکار ہونا اور دوسری جانب دنیا بھر میں محکوم اقوام کی ابھرتی تحریکوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرمایہ داریت اپنی سامراجی عزائم کو دوام بخشنے کے لیے آخری انتہاؤں تک پہنچ چکی ہے۔ جہاں دنیا کے محکوم اقوام اور دیگر محنت کش طبقوں کیلئے بھوک و افلاس، غربت، نقل مکانی، جنگی حالات اور ملکی و بین الاقوامی سامراجی قوت کی طرف سے مسلط کردہ پراکسی وار کے سوا کسی قسم کے انسانی زندگی کے لیے موزوں حالات پیدا کرنے کی گنجائش نہیں رہی ہے۔

ساتھیوں نے مزید کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات ناقابل مصالحت حد تک تیز ترین ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ طاقت کے حصول کے جنگ میں سامراجی قوتوں کے درمیاں ایک دفعہ پھر نئی ورلڈ آرڈر قائم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کو ایک سال کا زائد عرصہ ہونے کو جارہا ہے، مگر ایک طرف یورپ اور امریکی سامراج تو دوسری طرف روس اپنے اتحادیوں سمیت اس جنگ کو مزید ہوا دیتا ہوا دکھائی دے رہے ہیں، تاکہ ان جنگی حالات میں ہتھیار کی فراہمی کو ممکن بنا کر زیادہ سے زیادہ سرمایہ حاصل کیا جاسکے۔ یہ جنگ ایک طرف یوکرینی عوام کی زندگیوں پر بطور قہر نازل ہوئی تو دوسری جانب بڑے بڑے اسلحہ کمپنیوں کے منافعوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ساتھیوں نے کہا ایک طرف عالمی سامراجی بحرانات کی زد میں آتے ہوئے اس لوٹ مار اور آپسی چپقلش کی دوڑ تیز تر ہوتی جارہی ہے، تو دوسری جانب تیسری دنیا کے ممالک سامراجی خانہ جنگی اور نیو لبرل پالیسیز کے سبب خوفناک سیاسی و معاشی بحرانات کا شکار ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے میں سری لنکا، یوتھوپیا، لبنان، یمن، سیریا میں مسلسل جنگوں، شدید انسانی بحرانات کے خلاف ابھرنے والے احتجاجات اور حال ہی میں سوڈان اور پاکستان میں ریاستی ملٹری و جوڈیشر اور بیوروکریسی کا دولت اور طاقت کے حصول کے لیے آپسی چپقلش نے ان ممالک کو شدید بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔

مزید برآں مرکزی ساتھیوں نے کہا کہ بلوچستان اپنے اہم جغرافیائی حالات کے باعث تاریخی طور پر مختلف ادوار میں قبضہ گیروں کے زیر یلغار رہا ہے۔ آج چائنا کا تیزی سے بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار اور اپنے سامراجی پروجیکٹس کو دنیا بھر میں دوام بخشنے کے لیے بلوچستان میں اپنے فوجی اڈوں کی تعمیر ، تجارتی اور دفاعی لحاظ سے وسط ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ میں جغرافیائی طور پر اہم ترین خطوں پر اپنے کنٹرول کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے، تو دوسری جانب امریکہ اور یورپی سامراج مسلسل دیگر چینی اور روسی سامراجی قوتوں کو پیش قدمی سے روکنے کے لیے ان خطوں میں خانہ جنگیوں کا آغاز کر رہے ہیں، جس کی واضح مثال تائیوان اور یوکرین ہیں جو امریکی سامراج ، روس اور چائنا کی آپسی خانہ جنگی کا اکھاڑہ بن چکے ہیں، اور عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں عالمی تضادات کے تیز تر ہونے کے ساتھ بلوچستان عالمی سامراجی طاقتوں کی عزائم کے زیر نظر ان طاقتوں کی آپسی خانہ جنگی کا شکار ہو۔

ساتھیوں نے کہا یوں تو بلوچستان و بلوچ عوام دہائیوں سے ریاستی جبر کا شکار ہیں، جہاں نوجوان، عورتوں، بوڑھوں، بچوں کی اغواء نما گرفتاریاں، اور بلوچ نسل کشی معمول کے قصے بن چکے ہیں۔ وہیں دوسری جانب دیکھنے کو ملتا ہے کہ بلوچستان میں جاری جبر پر ملکی و بین الاقوامی میڈیا،نام نہاد ترقی پسند حلقوں، بلوچ یا غیر بلوچ پارلیمان پرستوں کی جانب سے کبھی بھی بلوچستان کے مسائل کو لے کر کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھاٸے گٸے تاکہ بلوچ عوام کو ان بدحال کیفیتوں سے نکالا جاسکے۔

بلوچستان میں جاری فوجی جارحیت کو صرف یہاں کے ساحل و وسائل کو لوٹ کر بین الاقوامی سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں بیچنے کے لیے جاری رکھا گیا ہے۔ریاست کی جانب سے بلوچ عوام کو تعلیم، صحت، روزگار ، امن و امان اور زندگی کے تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ بلوچ کے واحد ذریعہ معاش بارڈر ٹریڈ کو بھی عسکری طاقتوں نے اپنے قبضہ میں لیے رکھا ہے۔ عام عوام کسمپرسی اور مایوسی کی حالات میں زندہ ہے، اور بلوچستان بھر میں خودکشیوں کے بڑھتے واقعات اس سیاسی وسماجی اور معاشی گھٹن کا واضح طور پر اظہار بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ ایک طرف گھٹن زدہ حالات میں بلوچ پارلیمانی جماعتیں ریاستی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے ہوئے مزید اس سیاسی بحران کو بڑھاوا دینے اور اپنے گروہی مفادات کے حصول میں لگی ہیں، تو دوسری جانب دیگر غیر پارلیمانی بلوچ سیاسی قوتیں بلوچستان کے مسائل کو سنجیدہ بنیادوں پر حل کرنے کے لیے کوئی مضبوط سیاسی و معاشی پروگرام دینے سے قاصر ہیں۔

تنظیم کے ایجنڈے پر بات کرتے ہوئےمرکزی قائدین نے کہا کہ کسمپرسی کے حالات میں محکوم اقوام و طبقات کے پاس حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے واحد ہتھیار ان کی انقلابی تنظیم ہوتی ہے۔ ساتھیوں نے مزید کہا کہ تنظیم کا بنیادی اساس اس کے انقلابی نظریات اور ڈسپلن میں ہے، ساتھیوں نے کہا کہ قومی سطح پر جنم لینے والی لیڈرشپ اور سائنسی بنیادوں پر استوار سیاسی و معاشی پروگرام کے خلاء کو پر کیے بغیر بلوچ عوام کے سیاسی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ناممکن امر بن چکا ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد نظریاتی اساس بی ایس او کے دفاع میں کھڑے ہوکر اس علمی درسگاہ کو طاقتور بنا کر اس نظریاتی و لیڈرشپ کے بحران پر قابو پانا ناگزیر امر بن چکا ہے۔ تنظیم کے ایجنڈے میں قائدین نے نیشنل اسکول، فائنانس،پبلیکشن پر سیر حاصل بحث کی۔

آئندہ کے لائحہ عمل میں مرکزی اجلاس نے سینٹرل کمیٹی ممبر مقصود بلوچ اور خضدار زون کے ممبر سنگت نیک جان بلوچ کے استعفی نامہ قبول کرکے انہیں تنظیم کے بنیادی رکنیت سے معزول کیا اور مرکزی سینٹرل کمیٹی ممبر نعمان بلوچ کے مرکزی سینٹرل کمیٹی سے استعفی کو قبول کرکے ان کی مرکزی کمیٹی رکنیت ختم کیا گیا، اور ساتھیوں نے رواں سال جون میں مرکزی نیشنل اسکول بمقام شال منعقد کرنے کا فیصلہ لیتے ہوئے اجلاس کا انقلابی امیدوں کے ساتھ اختتام کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.