بی ایس او اوتھل زون کا سینیٸر باڈی اجلاس، اہم فیصلہ جات لیے گٸے۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کا سینئر باڈی اجلاس زیر صدارت زونل صدر کامریڈ بامسار بلوچ منعقد ہوا جب کہ اجلاس کی کاروائی زونل جنرل سیکرٹری سجاد بلوچ نے چلائی، اجلاس میں مختلف ایجنڈے زیر بحث رہے، جس میں سیکریٹری رپورٹ، ملکی و بین الاقوامی تناظر، تنظیمی امور، تنقید برائے تعمیر، اور آٸندہ کا لائحہ عمل زیر بحث رہے۔

سرکل کا آغاز بی ایس او کے انقلابی روایتی انداز سے کیا گیا جس میں ساتھیوں نے دنیا بھر کے انقلابی شہداء کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی اختیار کر کے اور پھر باقاعدہ طور پر اجلاس کا آغاز کیا۔

سیکریٹری رپورٹ پیش کرنے کے بعد اجلاس میں شامل ساتھیوں نے ملکی و بین الاقوامی تناظر کے ایجنڈے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج پوری دنیا تباہی و بربادی کی لپیٹ میں ہے عالمی طاقتور ریاستیں اپنی سرحدات کو وسیع پیمانے پر پھیلانے اور محکوم قومیتوں کو اپنے نوآبادیات میں شامل کرنے کی خاطر خونخوار و ھولناک جنگیں لڑ رہی ہیں جس کے باعث محکوم و مظلوم قومیتیں دن بدن تباہ و برباد ہوتے جارہے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ اجارہ داری عہد میں جہاں ایک طرف چند لوگوں کی جھولیوں کو سرمائے سے بھر دیا جارہا ہے تو دوسری جانب دنیا بھر کے نوے فیصد لوگ استحصال کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور استحصالی طاقتیں مزید محکوم قومیتوں کے افراد کو دبانے کے لیے نت نئے طریقے بھی ایجاد میں لا رہے ہیں۔ اسی بربریت میں وہیں پر آج محکوم طبقات اپنی قومی و طبقاتی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے ان جابر و طاقت پر مبنی حکومتوں کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کا آغاز کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔

جس کی واضع مثال ایک طرف ایران کی حالیہ تحریک اور دوسری جانب یوکرینی عوام کی مزاحمتی تحریکیں ہیں جو روس کی جارحانہ حکمت عملیوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ سفاکیت پر مبنی سرمایہ دارانہ اجارہ دار روس اپنے سرحدوں کو پھیلانے کے لیے یوکرینی خطوں پر حملہ کرنے کی کوشش کررہا ہے وہاں کے محکوم عوام کا استحصال کررہا ہے اس جنگی کیفیت میں یوکرینی عوام کےلئے اپنے سرزمین پر زندگی تنگ سے تنگ تر ہوتی جا رہی ہے اور یوکرینی عوامی سطح پر بھی ایک بڑا ردعمل سامنے آرہا ہے جو ان سامراجی طاقتوں کو للکار رہے ہیں اور اس کے علاوہ اسی جنگی کیفیت میں دوسری جانب نیٹو اتحادی امریکہ اور برطانیہ کی سربراہی میں یوکرین کو جواز بناکر بلواسطہ اپنے سامراجی انتقام لینے کی کوشش میں روس سے جنگیں لڑ رہی ہیں۔ ان دوہری سامراجی طاقتوں کے مقاصد صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ اپنے سرحدی حدوو و سامراجی حاصلات کو بڑھانا، اور اِن سامراجی قبضہ گیروں کی منزلت دنیا جہاں پر اپنا مرکزی قبضہ جمانا ہے۔

مزید اس استحصالی نظام پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں چینی سامراج کی موجودگی اس اس سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کا واضح مثال ہے چین جو کہ برسوں سے بلوچستان کے ساحل و سائل پر اپنا مرکزی قبضہ جمائے رکھا ہوا ہے اور بلوچستان کے محکوم و مظلوم عوام کا استحصال کر رہا ہے آج ایک بزگ و درتہ پوچ مزدور و بزگر بلوچ کیلئے اپنے پاک وطن میں زندگی تنگ سے تنگ تر ہوتی جا رہی ہے مگر دوسری جانب اسی چینی سامراج کی بڑھتی ہوئی طاقت کے ردعمل میں بلوچ قوم اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آئے روز تحریکیں ابھر کر سامنے آرہے ہیں مگر آج بدبختی کا عالم یہ ہے کہ بلوچستان میں عوامی سطح پر مہذب اور انقلاب دوست لیڈر شپ اور کے ساتھ ایک مضبوط و پائیدار ڈھانچے (یعنی پلیٹ فارم) کی غیر موجودگی کے باعث یہ تمام تر بکھری ہوئی تحریکیں اپنی منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور اس غیر لچکدار سیاسی ماحول سے سامراجی قوتیں مزید تواناء ہوجاتے ہوئے اپنی مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

مزید اجلاس میں ساتھیوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ عہد سامراجی قبضہ گیروں کا آخری عہد ہے آج دنیا بھر کے تمام ملکوں میں سرمایہ دارانہ اجارہ داری کے خلاف روز مرہ کی بنیاد پر تحریکوں کا آغاز ہوتا جارہا ہے جو اس بات کی واضح مثال ہے کہ آج یہ عہد(یعنی سرمایہ دارانہ اجارہ داری کا عہد) اپنی آخری سانس لے رہا ہے اس میں اب وہ شکتی نہیں ہے کہ یہ آئے روز کے پنپنے والے مسٸلوں کا ایک مستقل حل تلاش کرسکے یہ نظام اتنا سفاک و بے رحم ہوچکا ہے جو اپنے خلاف ہر آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش آزما رہا ہے حتیٰ محکوموں کی آوازوں کو دبانے کے لیے ان پر تشدد و بربریت بھی کر رہا ہے مگر اس نظام کے تخت دار پر بیٹھنے والے لوگ یہ بھول چکے ہیں کہ بقولِ فینن تشدد کا جواب تشدد سے ہی دیا جاتاہے اسی وجہ عالمی و علاقائی سطح پر دن بدن محکوم عوام بلخصوص طلباء و طالبات کی جانب سے احتجاجات جلسے جلوس اور ہڑتالیں نظر آرہی ہیں۔

جس کی واضع مثال حالیہ دنوں میں کوٸٹہ شہر میں فزیوتھراپی ایسوسیشن کی جانب سے اپنے جائز مطالبات کو منوانے کی خاطر پچھلے کٸی دنوں سے ڈاکٹر آف فزیوتھراپی کے طلباء احتجاجی مظاہرے رکارڑ کروا رہے تھے مگر اس سفاک و سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار حکومت نے پولیس کی مدد سے بزور طاقت فزیوتھراپی ایسوسیشن کے احتجاجی مظاہرے کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوششیں جاری رکھیں حتیٰ کہ محکوم طلباء و طالبات کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر بھی درج کیا اور اس کے بعد ان تمام تر طلباء و طالبات کو حراست میں لے کر کال کوٹھریوں میں بند کردیا مگر اس کے باوجود بھی بلوچ سماج کے فرزندوں نے اُن جابر و ظالم طاقتوں کے خلاف اپنا جہد آخری فتح تک جاری رکھا ہے۔

مزید انہوں نے کہا کہ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی و علاقائی سطح پر عوام اور بلخصوص طلباء و طالبات کی جانب سے ابھرنے والی آئے روز کے تحریکیں یہ واضح طور پر ثابت کرچکی ہیں کہ اب مزید اس سرمایہ دارانہ نظام میں وہ سکت باقی نہیں رہی جو عوامی مسائل کا ایک مستقل حل تلاش کرسکے اسی وجہ سے یہ تمام تر سفاک حکومتیں محکوموں کی آوازوں کو دبا رہے ہیں ان کی تحریکوں کو دبوچ کر ختم رہے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ وہ دن بھی دور نہیں کہ جب محکوموں کی یہ نا رکنے والی تحریکیں اپنے منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے اور ان تمام تر سفاک و بے رحموں کا خاتمہ کر دیں گے جو اس موجودہ نظام کی سفاکیت کے باعث بنے ہوئے ہیں۔

اسی سرمایہ دارانہ اجارہ داری پر قائم موجودہ اور سابقین بلوچستان کے حکومتیں اپنی سرشت کھوچکی ہے جس جس کے باعث بلوچستان میں موجود تمام حلقوں میں غم وغصے کی فضاء قائم ہے اور لوگوں کی حالتیں خصوصا طلباء و طالبات کی حالت بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے اور مسلسل طلباء اپنے غم و غصّے کا ابھار سیاسی و مزاحمتی تحریکوں کی صورت میں کر رہے ہیں جس کی واضع مثال لسبیلہ یونیورسٹی اوتھل میں حالیہ دنوں میں یونیورسٹی میں معاشی دیوالیہ ہونے کے ردعمل میں طلباء و طالبات کی جانب سے کی جانیوالی احتجاجی مظاہرہ ہے جسے فاشزم پر مبنی انتظامیہ نے سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش آزمائیں ان تمام تر ظلم و نا انصافیوں کے باوجود دلیر و جانباز طلبا و طالبات اپنے موقف پر ڈٹے رہے آخر کار انتظامیہ کو مجبوراً طلباء کے جائز مطالبات ماننے پڑے۔

مزید اجلاس می ساتھیوں نے کہا کہ حالیہ سیلابی بارشوں کے باعث جہاں ایک طرف پوری بلوچستان تباہی و بربادی کی لپیٹ میں تھا تو وہیں پر بلوچستان کے پسماندہ ضلع لسبیلہ بھی شدید متاثر ہوچکا تھا ان سیلابی بارشوں کے باعث علاقے کے تمام تر سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بھی کافی حد تک متاثر ہوچکے تھے جس میں لسبیلہ یونیورسٹی اوتھل سر فہرست ہے، لسبیلہ یونیورسٹی جو کہ ضلع میں وہ واحد اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے جہاں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوچ کرتے ہوئے چلے آتے ہیں مگر حالیہ تباہ کاریوں کی وجہ سے لسبیلہ یونیورسٹی کی حالت بد سے بدتر ہوگئی ہے اور حکومت بلوچستان بمع یونیورسٹی انتظامیہ خواب خرگوش میں مبتلاء ہوتے نظر آرہے ہیں۔

اجلاس میں شامل ساتھیوں نے اس استحصالی عہد میں طلباء سیاست پر تفصیلاً گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی شواھد سے اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ سیاست کی اولین ترجیحات میں طلباء نے اہم کردار ادا کئے ہیں اور ہر عہد میں نوجوان طبقہ بلخصوص طلباء و طالبات تمام تر سماجی سیاسی و معاشی تبدیلیوں کے باعث بنے ہیں طلباء سیاست آج اس جدید سرمایہ دارانہ عہد میں بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اور اس بحرانی کیفیت کے اسباب ایک طرف جمودی و عسکری طاقتوں کی جانب سے طلباء و طالبات کے تعلیمی اداروں کو چھاؤنیوں میں تبدیل کر دینا تو دوسری جانب طلباء تنظیموں کے آپسی تضادات ہیں جو آئے روز شدت اختیار کر رہے ہیں طلباء تنظیموں کی ان آپسی تضادات سے بیرونی طاقتوں کو ہی فائدہ صاحل ہوتا رہا ہے جس سے مزید طلباء سیاست کمزور ہوتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں جمودی، عسکری و طاقت پر مبنی حکومتیں مزید تواناء ہوتے جارہے ہیں۔

آج بلوچ سماج میں بھی یہی کیفیت طاری ہے ایک طرف ترقی پسند لیڈران اور اس کے ساتھ ہی ایک مضبوط و پائیدار ڈھانچے کی غیر موجودگی اس بات کی واضح مثال ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات طلباء سیاست بھی اثرانداز ہو رہے ہیں جس کے باعث طلباء تنظیموں میں بھی موقع پرستی و مفاد پرستی کا رجحان تیز تر ہوتی جارہی ہے آج اس عہد میں بلوچ طلباء تنظیموں کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ بلوچ سماج میں عوامی سطح پر جو خلاء یا کھیپ طاری ہے اس کھیپ کو پورا کرنے کے لیے شعوری بنیادوں پر اپنے کیڈر سازی کا عمل تیز تر کرنا اس وقت بے حد ضروری ہے اس کیلئے طلباء تنظیموں کو موقع پرستانہ سیاست محدودیت سے آگے بڑھ کر ایک ترقی پسندانہ سیاست کی جانب بڑھنا چاہیے اور شعوری و نظریاتی بنیادوں پر اپنے ممبران کی تربیت کرنے چاہیے اسی ترقی پسندانہ سائنسی نظریات کا علمبردار بی ایس او اوتھل اپنے سیاسی و ادبی سرگرمیوں کو بخوبی انداز میں آگے بڑھانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے اور بی ایس او اوتھل زون اپنے تمام تر ممبران کو سیاسی طور پر باشعور و باہمت بنانے کے لیے ہمہ وقت کوششوں میں مصروف عمل ہے اور مزید اپنے ممبران کی سیاسی و شعوری بالیدگی میں نمایاں کردار ادا کرنے کی کوششیں جاری رکھا ہوا ہے بی ایس او اوتھل زون کی جانب سے تمام تر طلباء و طالبات کے اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے جہد سے لے کر دیگر سیاسی و ادبی سرگرمیوں تک کا قیام عمل میں لائے گئے ہیں اور مزید بی ایس او اوتھل زون اسی ترقی و انقلاب کے راہ پر گامزن ہے۔

آخر میں اجلاس میں شامل ساتھیوں نے آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے میں لسبیلہ یونیورسٹی میں ریجنل اسکول منعقد کرنے اور بک اسٹال لگانے کا فیصلہ لیتے ہوئے پر باقاعدہ طور پر اجلاس کا اختتام کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.