طبقاتی سیاست 2.0

تحریر: عاصم سجاد اختر

انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

مغرب کے سماجی مرکزی دھارے میں اٹھنے والی ابھار کو، جنھیں ”قبضہ کرو“ تحاریک کے نام سے جانا جاتا ہے اب تقریباً ایک دہاٸی کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کے وجوہات و پس منظر سب سے بڑا معاشی بحران تھا۔ 99 فیصد بمقابلہ ایک فیصد کے نعرے نے لوگوں کے جذبات اپنی طرف متوجہ کیے جن کی زندگیاں بڑے معاشی اداروں کے زوال کی بدولت بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی تھیں۔

اگرچہ ”قبضہ کرو تحاریک“ سرمایہ دارانہ نظام کو منہدم کرنے میں کامیاب نہیں ہوٸے، لیکن برسوں کی ویرانی کے بعد ہوا کا رخ طبقاتی سیاست کے لیے ہموار کرنے میں کامیاب ہوگٸے۔ جیرمی کاربن اور برنی سینڈرز جیسے باٸیں بازو کے سیاستدان جنہوں نے اپنے اپنے سیاسی زندگی کی اکثریت بیگانگی میں گزاردی اب بالترتیب برطانیہ اور امریکہ کے سب سے بڑے منتخب دفاتر کے لیے زور آزماٸی کر رہے ہیں۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ معاشی بحران اور ” قبضہ کرو تحاریک“ نے عام آدمی کے اذہان کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ فرانس، یونان اور حال ہی میں اسپین میں باٸیں بازو نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ ہم یقینی طورپر کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی ایجنڈے پر ”طبقات“ اب جگہ حاصل کر چکا ہے۔

پچھلے بدھ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا۔ ایک وقت تھا کہ اس ملک میں مزدوروں کا عالمی دن بڑے پیمانے پر منایا جاتا تھا جب مزدور تحریک یہاں کی سیاست اور اہل دانش کے لب و لہجے پر بہت ہی اثر انداز تھا۔ پچھلے چند سالوں کی طرح اس سال بھی عالمی یومِ مزدور ٹریڈ یونینز کی جانب سے محض ایک خاموش کاوش تھی اب جن کا اپنا ہی حلقہ اثر بہ مشکل ”محنت کش طبقے کی سیاست“ کو بحال کرنے کےلیے متحرک و راضی ہے۔

سرد جنگ کے دوران صنعتی مزدوروں کا استدلالی طورپر مغربی ممالک میں بڑا کردار تھا۔ اور اسی طرح اس نے اکیسویں صدی میں بھی اپنی ماضی کے بہترین ادوار کو پھر سے حاصل کرنے کےلیے نمایاں جدوجہد کی ہے۔ پاکستان میں تمام ترقی پسندوں کو یہ بات زہن میں رکھنی چاہیے کہ اب تک کم از کم کچھ مغربی ممالک میں طبقاتی سیاست پھر سے تازہ دم ہو کر ابھر چکا ہے۔

قبضہ کرو تحاریک نے سماج کے روایتی محنت کش طبقے سے پس منظر رکھنے والے گروہوں میں مختلف قسم کے ترقی پسند رجحانات سامنے لاٸے۔ ان تحاریک کے اکثریتی کرتا دھرتا وہ تعلیم یافتہ نوجوان لوگ تھے جو قرض کے نفرت انگیز کیچڑ میں دھنس چکے تھے۔ جو انہوں نے اپنی اعلٰی تعلیم یا پھر کام کے دوران لیے تھے۔

یہ نوجوان غریب تو نہیں تھے مگر کسی بھی صورت میں امیر بھی نہیں تھے۔ لیکن ممکنہ طورپر معاشرے کے درمیانی طبقہ کے نماٸندے تھے جو کہ معقول زندگی تو گزار رہے تھے مگر ساتھ ساتھ کام کے لیے مناسب انتظامات کے طلب گار بھی تھے۔ یہ سب قرض سے متاثر لوگ تھے، خاص طورپر وہ جنہوں نے مالک مکان بننے کے لیے قرضے لیے تھے۔

قبضہ کرو تحاریک نے یہ قطعی طورپر ثابت کر دیا کہ سفید پوش تعلیم یافتہ پیشہ وروں کی ایک بہت بڑی تعداد نے خود کو مزدور سمجھ لیا ہے۔ روایتی صنعتی مزدوروں کی بجاٸے اپنی معیاری زندگی کو برقرار رکھنے کےلیے خود کو طویل محنت و مشقت کرنے والے محنت کش سمجھنے لگے۔

اسی لیے 99 فیصد بمقابلہ 1 فیصد والے نعرے پر لوگوں کو اعتبار ہونے لگا کہ ساز بازی نیو لبرل ریاست اور آزادانہ اعلٰی مالیاتی طاقت سے وابستہ نابرابری نے تعلیم یافتہ پیشہ ور طبقے کے زاتی خیال میں ٹوٹ پھوٹ کے احساس کو مزید اجاگر کر دیا جو کہ ماضی میں خود کو محنت کش نہیں کہا کرتے تھے۔

ان محنت کشوں نے اپنی قابلیت سے یہ محسوس کیا کہ وہ نہ صرف اپنے مفادات کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں بلکہ وہ دنیا بھر کے عام عوام کی آواز بن سکتے ہیں۔ جیسے کہ مارکس نے امید قاٸم کی جب تقریباً 200 سال قبل اس نے حقیقی صنعتی مزدورں کی حالت زار بیان کیا۔ وہ مہاجرین سمیت کم ھنرمند محنت کشوں کےلیے آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ شناخت کی سیاست، عورتوں کی تحریک، نسلی و لسانی گروہوں اور جنسی حقوق کے لیے آواز اٹھانے مختلف سیاسی لہروں اور تحریکوں کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ماحولیاتی استحکام اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی غیرذمہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کو لازمی طورپر پابند کرنے کے اہم و نمایاں سیاسی مساٸل کو انہی کام کرنے والے لوگوں نے ابھارا ہے۔

میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ ہمیں ایک انقلاب کا سامنا ہے، لیکن بہت سے تناظر میں مقبول داٸین بازو کا دھڑا سرمایہ دارانہ نظام کے بحرانوں اور سیاسی نماٸندگی کی تشفی کیے بغیر عام لوگوں کے خوف کو دیگر فرضی و خیالی معاملات کے ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ بالخصوص پاکستان میں یہ حقیقت ہے جہاں ردعمل قوتیں اور ان کا بیانیہ ترقی پسندانہ متبادل کو کم تر ظاہر کر رہے ہیں۔

کم از کم کچھ ممالک میں طبقاتی سیاست کا متحد ہونا اس بات کو ثابت کر دیتا ہے کہ غریب کی آزادی لسانی نا برابری اور پدرشاہی تسلط کے خلاف مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ہمارے ملک کی نوجوان آبادی جو کہ اکثریت میں ہے، اپنے لیے معیاری زندگی اور عظمت و وقار کے حصول کے لیے ان تمام طبقات کو متحد و یکجا کر سکتی ہے۔

اس کے برعکس جب ہم بار بار شناختی سیاست میں ملوث ہو رہے ہوں تو ایک غیرسیاسی درمیانہ طبقہ ہمارے لیے رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمیں مناسب وقت پر ایک راستے کا انتخاب کرنا ہوگا جس کے نتاٸج آنے والی نسلوں پر اثر انداز ہو نگے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.