بلوچستان میں نوجوان ڈاکٹرز کے ساتھ برا برتاو

تحریر: سازین بلوچ 

بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں ایک تو پہلے سے میڈیکل کالج اور تعلیمی ادارے نا ہونے کے برابر ہیں پورے بلوچستان میں برسوں سے صرف ایک میڈیکل کالج ہے جو کوئٹہ میں واقع ہے. اور اس میڈیکل کالج میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں طلباء و طلبات ٹیسٹ دیتے ہیں اور ان میں سے صرف دو سو سٹوڈنس کی ایڈمیشن ہوتی ہے اور باقی کچھ تو نا امید ہو کر پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں تو کچھ اگلے سال ٹیسٹ کی تیاری کر لیتے ہیں

جن طلباء اور طلبات کو ایڈمیشن مل جاتی ہے, ان پانچ سالوں میں کبھی ہاسٹلز کے نام پے انکو رات بھر باہر روڈوں پے ذلیل کیا جاتا ہے تو کبھی سکیورٹی کے نام پر زلیل کیا جاتا ہے. کبھی کلاسس کے نام پے تو کبھی کالج کو غیر سرکاری قرار دے کر وہاں دوسرے بچوں سے پیسے لے کے میرٹ پہ آنے والے بچوں کا حق مار دیا جاتا ہے

بولان میڈیکل کالج کے طلباء و طالبات ہر دوسرے مہینے پریس کلب پے اپنے تعلیمی زوال کو بچانے کا بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں. کبھی مکران جالاوان اور لورالائی میڈیکل کالجز کو بچانے کے لئے روڈوں پے نکل جاتے ہیں اور انکی پڑھائی زوال کی طرف آجاتی ہے. جب مشکل سے وہ پانچ سال پورے کر کے ڈاکٹر بن جاتے ہیں تو پھر بھی انکو کبھی ملازمت کے نام پے زلیل کیا جاتا ہے تو کبھی انکو مریضوں کے ہاتھوں زلیل ہونا پڑتا ہے. کبھی میڈیکل سہولیات نہ دے کر انکی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہیں

پاکستان کے باقی صوبوں اور دنیا بھر کے ڈاکٹرز کو تحفظ دی جا رہی ہے تا کہ وہ عوام کو بچا سکیں لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے بلوچستان کے ڈاکٹرز پے لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں

جی ہاں! بلوچستان میں یہ ڈاکٹرز اٹھارہ بیس سال کے محنت کے بعد جب قابل ڈاکٹرز بن جاتے ہیں تو ان پے میٹرک پاس پولیس والے سکیورٹی کے نام پے لاٹھیاں برسا دیتے ہیں اور انکو قید خانوں میں بند کیا جاتا ہیں . ڈاکٹرز حکومت کے خزانوں کو مانگنے سڑک پے نہیں آئے تھے بلکہ اپنے لئے میڈیکل کٹس مانگنے نکلے تھے کیونکہ میڈیکل کٹس نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے ڈاکٹرز کرونا کے زد میں آچکے ہیں

جب ڈاکٹرز اپنے حق کے لئے نکلے تو انکو قید خانوں میں بند کر دیا گیا. اگر اسی طرح چلتا رہا تو آنے والے ہفتوں میں بلوچستان کا حال بھی اٹلی جیسا ہوگا لاشوں کو اٹھا اٹھا کے تھک جایئنگے لوگ لیکن لاشیں ختم نہیں ہونگی

خدارا بلوچستاں کے حال پے رحم کریں اور ان ڈاکٹرز کو میڈیکل کٹس دی جائیں تا کہ وہ باقی عوام کو پراپر طریقے سے علاج کر سکیں

کبھی انکو سلامی دی جاتی ہیں
تو کبھی تحفے میں ڈھنڈے برسائے جاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.