مطالعہ و کتاب دوستی

تحریر: وہید انجمؔ

کسی چیز سے متعلق واقفیت کے واسطے اُس کی جانب متوجہ ہونا، مطالعہ کہلاتا ہے۔ عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ مطالعہ و کتاب کا بڑا گہرا رشتہ ہے یعنی جہاں مطالعے کا لفظ آجائے وہاں کتاب کا لفظ بھی آجاتا ہے اور جہاں کتاب کا لفظ آجائے وہاں مطالعے(کتاب پڑھنے) کا خیال بھی آجاتا ہے۔ سماج میں کچھ حسّاس اور یکسو مزاج رکھنے والی شخصیتیں ہوتی ہیں جنہیں ہم قلم کار کہتے ہیں ۔ معاشرتی زندگی کو لسانی قالب میں ڈھالنا اور اُسے حوالہء قرطاس کرنا قلم کار و ادیب کا کام ہوتا ہے۔

مطالعہ ایک علمی و شعوری عمل ہے اِس کو ہم ایک اور جہت سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ قدیم انسانی تاریخ سے عہدِ حاضر تک فکری ارتقاء مختلف شکلوں میں وجود پزیر ہے۔ انسان تفکر ، تمدّنی دنیا، فطری مظاہر اور مابعدالطبیعاتی مسائل کا سامنا کرتا آرہا ہے۔ لکّھے ہوئے ادبی ، سماجی ، سیاسی اور سائنسی ضخیم مجموعے انسان کے تجربہ و مشاہدہ اور تخلیقی نتائج، تقریباً انہی اہداف کے ارد گرد گردش کر رہے ہیں جب علم و آگاہی کے خیالات تخلیقیت کے ساتھ اذہان کا موضوع بن گئے تو دانش کی نئی نئی کونپلیں پھوٹ پڑیں۔ جہاں تک مطالعے کی اہمیت کا سوال ہے تو اِس میں یہ ہے کہ اگر واقعی کسی کا مطالعہ “مطالعہ” کہلانے کا مستحق ٹھہرے مثلاً جس میں تجسّس و جستجو ہو، سچائی ہو، مفہوم تک پہنچنے کی کاوش ہو، تو اُس مطالعے کی اہمیت نا گزیر ہے جو صاحبِ مطالعہ کے لیے سطحی پن سے نکلنے اور ذہنی بالیدگی کی دنیا میں داخل ہونے کا محرک بنے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عالم ہونا، فاضل ہونا اور اپنے علمی تصورات کی تفہیم میں کامل ہونا یہ الگ بات ہے ، کتاب پڑھنے کے مقصد کو سلیس الفاظ میں ہم یوں سمجھیں کہ سچ اور حقائق جاننے میں یہ ہمارے لیے کتنا معاون ہے؟ ہے یا نہیں ؟

جب سے انسان بطورِ شعوری ہستی زمین پر آباد ہیں اُسی سماج سے تعلیم و فکر کی کڑیاں بھی تاریخی تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ لہٰذا علمی بنیادوں کی کوئی خاص تاریخ مقرر کرنا_ اور تو کچھ نہیں، سوچنے کی بات ضرور ہے، تاہم اِس علمی سفر میں ہمیں جدید علوم کی تعلیم یونان سے ملتی ہے جس نے مطالعے کے لیے علمی و سائنسی لٹریچر کا ایک عظیم حصہ دنیا کے حوالے کیا، آج تک علمی دنیا یونانی لٹریچر سے مستفید ہو رہی ہے۔ عرب سرزمین پر معتزلہ جیسی فکری تحریک کا ظہور میں آنا، سائنسی ترقی، تحقیقی خدمات اور “بیت الحکمت” نامی کتب خانہ اصل میں یونانی کتب کے مطالعے کے ثمرات تھے۔

مجموعی حوالے سے دیکھا جائے تو چین اور تبت میں لکڑی کے ٹھوس چھاپوں سے مطالعے کے لیے کتابیں چھاپنے کا دستور پہلے سے تھا لیکن جدید یورپ نے کتاب چھاپنے اور پڑھنے میں مزید وسعت پیدا کی اور اِس فن کو قابِل قدر ترقی دی۔ سولہویں اور سترھویں صدی کے یورپی سماج میں تحریک پیدا کرنے کا سبب جوہان گوٹن برگ نامی ایک جرمن کا بنایا ہوا پریس تھا جس میں اُس نے متحرک ٹائپوں کے ذریعے پہلی کتاب چھاپی، اُس کے بعد یورپ میں کتابیں چھاپنے کی روایت پڑ گئی اور “فلاسوفیکل کالج” جیسے ادارے کے قیام سے جدید سائنسی علوم زیرِ بحث آتے تھے۔

دنیا میں انقلابی اقدار کی نشوونما میں مطالعہ و کتاب دوستی کا ایک عظیم کردار دیکھنے کو مل رہا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے میں مرد اور عورت دونوں کو برابر مطالعاتی علم سے متعلق آگاہی دی جائے اور اُن کی اِس ذہنی خوراک کا بندوست کیا جائے ، کیونکہ جس طرح بغیر کھانے کے جسم کمزور ہوتا ہے اسی طرح ذہن بھی مطالعے کے بغیر بیمار ہے۔
؎ لوگ سنتے کتاب کی باتیں
پاتے وہ انقلاب کی باتیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.