ناامیدی کی کشمکش

تحریر  : غلام رسول آزاد

کچھ امیدیں پھر سے اس سال سے ہیں۔ جو ہر سال ہوتی ہیں اور پھر ناامیدی سے گزر جاتی ہیں. اب کی بار بھی نہ جانے کیوں بار بار اداسی کی پیمائش بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر طرف ناامیدی سی نظر آرہی ہے۔ یہ سال بھی بہت ہی شاندار غموں کے ساتھ مایوسی، ظلم، بےبسی اور چار دیواری کے زندان میں بند، بھوک، پیاس, درد بھری زخمیں، بےروزگاری، ٹوٹی پھوٹی تعلیمی نظام، ہر طرف بےچینی, غلامی غداری اور نفسانفسی میں ہوں ۔

آسمان و زمین ہم سے جیسے روٹھے روٹھے ہیں. چرند پرند ہم سے بیگانہ ہوگئے ہیں۔ یہ سمندر اور ویران جنگلیں ہمیں اب پسند نہیں کرتے ہیں۔ بھلا سمندر کیوں ہمیں پسند کرے جبکہ ہم نے ان کو خود اپنے ہاتھوں سے بیگانے ہاتھوں میں دیے دیا ہے ۔ سمندر کے ٹھاٹھیں مارتی لہریں بیگانوں سے بالکل اکتا گئے ہیں ۔ ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ یہ ہولی جانے کب ختم ہو ۔
غمزدہ ماوُں کے لاپتہ بیٹے ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ماوُں نے اہنے پلکیں ان کے راستے میں بچھائے ہوئے ہیں. ماں تو ماں ہوتی ہے نہ. غم و غصے ابھی تک عروج پر ہیں، ابھی تک ہر طرف بہنوں کی عزت نیلام ہوری ہے، ہم نے تو کہا تھا کہ ہم لج ہیں گہارانی۔ ارئے بھئ, یہ تو صرف ایک شعر تھی ایک نعرہ سے زیادہ کچھ نہیں۔

ماوُں کے آنسوؤں نے زمین و آسمان کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ ان آنسوؤں کے سیلاب نے بحر بلوچ کو شرمندہ کر دیا ہے۔ پر ہمیں شرمندگی نہیں تو کیا ہوا… مگر ماں سے جیسے پیار کرنے والا خدا ماں سے ہزار درجہ محبت کرنے والا خدا جیسے اب تو ہم سے دور ہی دور ہو گئ ہے۔ اے خدا آپ ہیں پشت پناہ ہیں ان مظلوموں اور مجبوروں کے

یہ سال اور گزرے ہوئے طویل زمانے میں کوئی فرق نہیں ہمارے لیے جیسے کوئی صدی گزری۔ ہمیں تو زمانے ہوئے ہیں خوشیاں دیکھے ہوںے. اب ہمیں تو ایسے لگتا جیسے خوشیاں بھی روٹ گئے ہیں. مسکراہٹ تو ہوتی ہے بس خود کو دلاسہ دینے کیلئے کہ شاید اب کی بار کوئی باہر آئے اور غموں کو ختم کردے اور سازشوں کو شکست دے کر ایک نئی مستبقل کے ساتھ صبح کی پہلی کرن نظیر ہو۔ ہمیں بس اتنا معلوم ہے کہ ہمارے بعد ظلمتوں کے یہ شب ختم ہونگے. اندھیر نگری میں ایک نیا سورج طلوع ہوگا۔ جہاں ماوُں کی پلکیں نم نہیں ہوں گی بلکہ ان کے نرم و نازک ہونٹوں پہ مسکان ہوگا. شادمانی ہوگی۔ ہریالی سی ٹھنڈک ان کے من پر راج کرے گی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.