آن لائن کلاسس کا اجراء اور دیہی حلقوں کے طلبا کو سمسٹر منجمد کرنے کا جامعات کا مشورہ تعصبات پر مبنی ہے. طبقاتی نظام تعلیم اور متعصب رویے کسی صورت قبول نہیں کرینگے. بی ایس او

مرکزی ترجمان بی ایس او 

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہیکہ کرونا وائرس دنیا بھر میں سماجی و انتظامی ڈھانچوں کو شدید متاثر کرچکی ہے اور آج سرمایہ دارانہ نظام مجموعی طور پر سیاسی سماجی و معاشی بہران کی گہری لپیٹ میں ہے۔ موجودہ سماجی بحرانات اس نظام کے استحصال پر مبنی ڈھانچوں کی حقیقی صورت کو بخوبی افشاں کرچکی ہیں جس میں دنیا کی ترقی یافتہ ہونے کے تمام دعوے بے بنیاد ثابت ہورہے ہیں. آبادی کی اکثریت کو بنیادی ضروریات زندگی تک میسر نہیں ہیں اور آبادی کی مناسبت سے طبی ضروریات سے زیادہ تباہی کے اشیاء ہی انسان نے ترتیب دیئے ہیں تا کہ لوگوں کو بزور طاقت قابو کر کے تمام تر بنیادی ضروریات زندگی سے محروم رکھا جا سکے۔

بیان میں کہا گیا کہ ان بدلتے حالات کے تناظر میں ہر طبقہ فکر بلواسطہ متاثر ہوچکا ہے لیکن اس نظام میں موجود سیاسی و سماجی بحرانات انسان کو ایک ایسے دوراہے پر لا چکی ہے کہ ایک قابل علاج وباء کو بھی جدید دنیا قابو کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ مگر ایسے بحران کے باوجود انسان اپنی زندگیوں کا سودہ زر کے حصول کی خاطر خطرے میں ڈال رہی ہے اور تمام سماجی ڈھانچے اپنی زوال کا کھل کر اظہار کر رہی ہیں. ان حالات کا تیسری دنیا کے ممالک پر گہرے خونی اثرات مرتب ہونے کے خدشات ہیں کیونکہ جہاں لوگ دو وقت کی روٹی بمشکل پورا کر سکتے ہوں وہاں لوگوں کو بڑی مدت تک گھروں میں قید رکھنا ممکن نہیں۔ اب اگر لوگ نکلیں گے تو وباء سے مرینگے اور اگر نہیں نکلیں گے تو بھوک سے مرجائینگے اور یہی اس نظام کا عام عوام کیلئے فیصلہ ہے۔

بی ایس او کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیم کا شعبہ بھی اپنی تمام تر نابودی کا بوجھ طلبہ و طالبات کے کندھوں پر ڈال رہی ہے اور واضح متعصبانہ روش اپنا کر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو کسی خاطر میں لائے بغیر آن لائن کلاسس کی اجراء کردی گئی ہے۔ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے انہیں اپنے سیمسٹر منجمد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جبکہ وہ طلبہ جنہیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے انہیں بھی آن لائن کلاسس کیلئے کوئی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں ہیں اور طلبہ وطالبات کی اکثریت کلاسس سے بائیکاٹ کر چکی ہے. مگر کچھ تعلیمی اداروں کی جانب سے ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے طلبہ و طالبات کو مختلف طریقوں سے دھمکایا اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔

مزید برآں طبقاتی نظام تعلیم کی بدولت امیر طبقہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں حالات کو اپنے تابع کرنے کے تمام زرائع با آسانی حاصل کر سکے کیونکہ سرمایہ داری انفرادی مفادات کی نمائندہ نظام ہے جبکہ ضرورت اجتماعی مفادات کی پاسداری کا ہے اور واحد نجات کا زریعہ بھی اس انسان کش وباء نما نظام سے نجات کے ہی صورت میں ہوسکتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی ادارے تمام طلبہ و طالبات کے مسائل کو بلا رنگ و نسل حل کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ ہی آن لائن کلاسس کی اجراء سے پہلے انٹرنیٹ جیسی بنیادی ضروریات ہر شہری کو مہیا کریں تا کہ تمام اسٹوڈنٹس ان کلاسس سے مستفید ہوسکیں اور ایسے ایپلیکیشنز بھی فراہم کیئے جائیں جس میں طلبہ و طالبات کو سائبر سیکیورٹی جیسے مسئلہ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ فی الوقت آن لائن کلاسس کیلئے زوم جیسے ایپلیکیشن کے استعمال سے طلبہ و طالبات سائبر سیکیورٹی جیسے مسئلہ کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔

آخر میں کہا کہ طلبہ و طالبات کو درپیش سنجیدہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے تعلیمی اداروں کے جانب سے دھونس اور دھمکیوں کا سہارا لیا جا رہا ہے اور مختلف طریقوں سے اسٹوڈنٹس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے. لیکن طلبہ کو اپنے حقوق کے دفاع میں بولنے سے نہیں روکھا جاسکتا. تعلیمی اداروں کی جانب سے ایسے رویوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔ جب تک طلبہ و طالبات کے مسائل حل نہیں کیئے جاتے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن طلبہ کے حقوق کی دفاع ہر فورم پر کرتی رہیگی اور کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.