سلامی سے لاٹھی چارج تک

تحریر: جمیل احمد بلوچ 

دوسرے دیشوں میں اس وقت ڈاکٹروں کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے اور قطاروں میں ٹہر کر سلام کیا جا رہا ہے. اور ڈاکٹروں کو اعلی سے اعلی درجے کی حفاظتی سازوسامان فراہم کی جاتی ہیں اور ان کی زندگی کو عام عوام کی زندگی سے بہتر مقام حاصل ہے. ڈاکٹروں  کو زندگی بچانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے البتہ جن کی وجہ سے جانوروں کو بھی درد کی دوائی ملتی ہے جو حقیقت میں انسانیت کی جنگ لڑتے ہیں، چاہے پھر کیوں نہ وہ خود کی گلیوں کو ویران کردیں

یہ وائرس طبقاتی بحران ہے. یہ غریب کی تباہی کا سیلابی طوفان ہے. اشرافیہ اور جاگیرداروں کو کورونا کا اگر ڈر نہیں تو تجارتی  معیشت کا بحران لازمی ہے. اس مرض کو ہھتیاروں کی بدولت نہیں ہرایا جا سکتا. اس سے اگر کوئی لڑ سکتا ہے تو وہ ہے ڈاکٹرز اور مضبوط و مربوط طبی شعبہ۔

پاکستان کے  دوسرے صوبوں میں ڈاکٹروں کو کیا عزت وقار حاصل ہے؟ اور بلوچستان میں کیا؟ اگر اتنے ہی خواہش مند ہو بلوچستان کی تباہی کے تو اس بحران میں یہ خیالاتی جنون بھی اپنے دماغ میں لائیں(جناب) یہ بحران  حقیقت میں تیرے گھر کو بھی جلا دےگا۔ یہ قدرتی طوفان ہے جس کی کوئی حدود نہیں

بلوچستان کے ینگ ڈاکٹرز آپ سے وائرس کو روکنے کی التجا کررہے تھے, کیا اس لئے احتجاج کرنے کیلئے نکلے تھے؟ نہیں جناب! وہ امدادی و طبعی سامان وصول کرنا چاہتے تھے جو آپ کرونا وائرس کے نام پر پوری دنیا سے امدادی و طبعی سامان وصول کررہے ہو۔ مگر آپ بلوچستان کی غریب عوام کے مسیحائوں پر تشدد کر کے انہیں جیل میں ڈال دیتے ہو. آپ کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ڈاکٹرز بھی فیملی رکھتے ہیں. وہ سبھی بھی اس خطرناک وائرس سے ڈرتے ہیں. جس روم میں کررونا وائرس کا مریض ہوتا ہے وہیں ڈاکٹر بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے. اسے بھی مریض کی دیکھ بھال کرنے کے بعد گھر جانا پڑھتا ہے. کررونا اسے بھی لگ سکتا ہے کیونکہ کہ دونوں ایک ہی کمرے میں سانسیں لے رہے ہوتے ہیں. ڈاکٹر کی وجہ سے ڈاکٹر کی فیملی کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ آپ کیوں نہیں سمجھتے جس وائرس سے موت ہو جائے اسے کندھوں پر نہیں اٹھایا جاتا. اس کا جنازہ تک نہیں پڑھا جاتا. اس کا آخری دیدار تک ممکن نہیں ہوتا. اس کے باوجود بھی ڈاکٹرز قدم بہ قدم کھڑے ہوتے ہیں, وہ خود کی زندگیوں کی پرواہ نہیں کرتے۔

فرشی خداؤ سمجھ جاؤ۔ یہ وائرس طاقت کپڑے شکل امیر غریب اور کریکٹر نہیں دیکھتا. ہمارے ڈاکٹرز جو بلوچستان  کے تحفظ کی نشانی ہیں, جو ہماری خیرخواہی کی خاطر خود کی زندگی قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔
 مگر ہم ڈاکٹروں کے تحفظ کا دعوی نہیں کرتے جو ڈنڈے اس حکومت کو پڑنے چاہئیں وہ انہیں پڑ رہی ہیں جو کررونا جیسے وائرس کو شکست دینے کیلئے مسلسل نبردآزما ہیں۔ چلو, آپ ڈاکٹروں کی فکر نہیں کرتے تو خود کی زندگی کی خاطر ڈاکٹروں کے تمام مطالبات کو تکمیل تک پہنچائیں اور وائرس کے نام پر لوٹنے والوں کو گھسیٹ کر روڈ تک لائیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.