بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن کا مرکزی کمیٹی کا دو روزہ اجلاس 30، 31 جولاٸی کو زیرِ صدارت مرکزی چیٸرمین منعقد، اہم فیصلہ جات لیے گٸے۔

رپورٹ: سیکریٹری اطلاعات بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن کے مرکزی کمیٹی کا دو روزہ  اجلاس زیرِ صدارت مرکزی چیٸرمین چنگیز بلوچ منعقد ہوا، جب کہ اجلاس کی کاررواٸی سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے چلاٸی۔ مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں عالمی و علاقاٸی تناظر، سیکریٹری رپورٹ، تنظیم و تنظیمی امور، نیشنل اسکول، اتحاد و مشترکہ جدوجہد، تنقید براٸے تعمیر اور آٸندہ کا لاٸحہ عمل کے ایجنڈے زیرِ بحث رہے۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز بلوچستان اور دنیا بھر کے انقلابی شہدا کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا، جس کے بعد مرکزی چیٸرمین چنگیز بلوچ نے افتتاحی خطاب کیا۔ چیئرمین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا عہد پاپولزم کا عہد ہے جس میں عقل، دلیل، نظریہ، منطق و ساٸنسی کام کی گنجاٸشیں انتہاٸی کم ہیں۔ یہ ایک ایسا عہد ہے جس میں ہر کوٸی جلد بازی اور افراتفری کے عالم میں ہے اس عہد میں منظم نظریاتی کام کرنا اور منظم واضح نظریاتی لاٸن پر کاربند رہنا انتہاٸی کٹھن اور دشوار عمل ہے۔ دنیا میں سیاسی رنگ ملٹی پولر ہو چکا ہے، سامراج امریکہ اپنی ساکھ و پوزیشن بچانے کی دوڑ دھوپ میں ہے، ایشیا راٸٹ ونگ پاپولسٹوں کا گڑھ بن چکا ہے جب کہ لاطینی امریکہ میں مسلسل لفٹ نظریات کے حامل انقلابی قیادتیں مسلسل آگے بڑھ کر واضح و مستحکم پوزیشنز لے رہی ہیں۔ بلوچ قوم بھی مجموعی طورپر نوآبادیاتی جبر کی چکی میں مسلسل پس رہی ہے، لاپتہ ہو رہا ہے، قتل ہو رہا ہے اور مسلسل بدحالی کی کیفیت میں ہے۔ ایسے حالات میں منظم انقلابی جدوجہد ہی قومی بقا کی ضامن ہے۔

آج کے عہد میں جہاں فقط بڑے بڑے نعروں کے گرد سیاست ممکن رہ سکی ہو وہیں منظم رہ کر بی ایس او کے ساتھیوں کا نظریاتی عَلم اونچا رکھنا اور بلوچ قومی ادارہ کو منظم کرکے خود مختار رکھ کر  آگے بڑھتے رہنا، اپنے اداروں کو مسلسل فعال رکھنا اور پھر تمام تر یلغاروں کے باوجود اپنے نظریاتی لاٸن پر نہ صرف ڈٹے رہنا بلکہ اس پر استحکام حاصل کرنا یقیناً ایک شاندار، قابل تحسین عمل ہے۔  بی ایس او کے قاٸدین اور کیڈرز کو اس عمل کو جاری رکھتے ہوٸے انقلابی علم اور تجربہ کے مشقت سے گزرنا ہوگا۔ مسلسل چلتے رہنا ہے، جہد کرنا ہے، اپنے ساتھیوں کی جلد بازی اور مایوسی کو برداشت کرنا ہے تو دوسری طرف خاموش رہنے، انتظار کرنے، صبر کرنے کے عمل کو بھی مسلسل سیکھتے اور دہراتے رہنا ہوگا کیونکہ قربانی فقط جان کی قربانی نہیں ہوتی بلکہ زندگی وقف کرکے مسلسل حاصلات اور نقصانات کو سامنے رکھنا بھی ایک انقلابی سیاسی ورکر کا خاصہ ہونا چاہیے۔

عالمی و علاقاٸی تناظر پر گفتگو کرتے ہوٸے ساتھیوں نے کہا کہ آج سامراجی طاقتیں مزید سفاک ہو چکی ہیں اور انسانیت کے استحصال میں اضافے کے ساتھ اقوام پر قبضہ کرنے کی سازشیں بھی۔ ایک طرف روس نے یوکرین کے صدر و حکومت کی یورپ نواز رجحانات کو جواز بنا کر یوکرینی عوام و وطن کو کچلا اور قبضہ کیا ہے تو دوسری طرف سامراجی چین کی نظریں بھی مسلسل تاٸیوان پر ٹکی ہیں اور امریکہ و چین بہت جلد اپنے سامراجی عزاٸم کےلیے براہِ راست محکوم خطوں میں پراکسی وارز کی جانب جاٸیں گے۔ امریکہ اپنی کھوٸی ہوٸی پوزیشن کو سنبھالنے اور بحال کرنے کی کوشش کرے گا اور چین اپنے حاصلات کے دفاع اور مزید آگے بڑھنے کےلیے لوٹ کھسوٹ جاری رکھے گی۔ اس تناظر میں محکوم اقوام و طبقات پر ڈھاٸے جانے والے جبر و بربریت میں مزید اضافہ ہوگا، بھوک میں شدت لاٸی جاٸے گی، غزاٸی قلت کو بڑھایا جاٸے گا، اقوام پر نیو کالونیٸل پالیسیز مسلط کرنے کی کاوشیں تیز تر ہونگی، اقوام کی خود مختاری کار پوریشنز اور نو آبادیاتی اداروں کی جھولی میں پھینکی جاٸیں گی، وہی ان اقوام و طبقات کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، ان کے قومی شناخت کو مسخ کریں گے۔

اس امر میں جو قوم و طبقہ جتنا منظم ہوگا، اپنی حفاظت کےلیے تیار ہوگا وہی ان زوال پذیر سفاک بپھری طاغوتی لشکروں کو شکست دے پاٸے گا اور اپنے قوم و وطن کی حفاظت کر پاٸے گا۔ سمجھوتہ کرنے والی غیر منظم اقوام و ممالک سامراجی طاقتوں کے سامنے ڈھیر ہونگی اور ان میں منظم انقلابی قیادت کی عدم موجودگی انہیں سفاک طاقتوں کے سامنے نہتا پھینکے گا۔

پاکستان جو کہ ہمیشہ سامراجی قوتوں کے اشاروں کا طابع رہا ہے اس کی حالت زار بھی ایسی ہی ہے۔ یہاں اشرافیہ کے آپسی مفادات کے اس طرح غلط ملط ہوچکے ہیں کہ ان میں سے کوٸی بھی بر سر اقتدار ہو جاٸے عوام اور اقوام کی حالت زار بد سے بد تر رہتی ہے اور اس زوال کو مزید کمک فراہم ہوتی ہے۔

ساتھیوں نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوٸی مثال دی کہ یہ سفاکیت و بربریت بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر شدت اختیار کرکے واضح شکل میں نمودار ہو رہی ہے۔ بلوچ نسل کشی ایک ایسی انتہا کو پہنچی ہے کہ بلوچ قوم ایک بہت بڑے انسانی بحران سے دو چار ہے۔ مجموعی طور پر عوام جبر و اذیت کی ایک ایسی کیفیت سے گزر رہی ہے کہ اس میں زندگی اور موت کا تعین کرنا بھی بلوچ کےلیے مشکل ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس بد حال و جنگ زدہ عوام سایہ فراہم کرنے کی بجاٸے وزارتوں، ٹھیکوں اور غاصب کے سامنے زیادہ سے زیادہ فرمانبردار ہونے کی دوڑ میں ہیں۔ ان کی حالت زار یہ ہے کہ چاپلوسی اور قوم کو دھوکہ میں ان کا آپس میں ایک مقابلہ جاری ہے، جو جتنا فرمانبردار ہوگا اتنی ہی وزارتیں اس کے فاٸل میں لکھی جاٸیں گی۔

قیادتی بحران بلوچ کی اذیت کو ہر لمحہ بڑھاوا دے رہا ہے۔ موجودہ قیادتیں اس حد تک احمقی و موقع پرستی کا شکار ہو چکی ہیں کہ وہ بلوچ کے اجتماعی درد تک سے نا آشنا و بیگانہ ہیں۔

ایسے امر میں انقلابی قیادت کی موجودگی لازم ہے جو بلوچ کو نہ صرف یقین و تسلی دے بلکہ وہ چند قدم آگے بڑھ کر بلوچ کا محافظ بھی بنے اور اس کا اعتماد بھی بحال کرے۔ آج عام بلوچ مایوسی و بیگانگی اور بد اعتمادی کا شکار ہو چکا ہے، انسانی بحران جنم دینے والے لاپتہ افراد کے مدعے پر بھی وہ فقط آنسو بہاتا اور افسوس کرتا ہے مگر اس عملی جدوجہد کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتا، ایک انقلابی قیادت ہی عوام کی اس عوامی عدم دلچسپی و بیگانگی کو ختم کر سکتا ہے، اور اس انقلابی قیادت کو بی ایس او ہی تراش سکتا ہے جس کے تجربات و حاصلات اس کے کیڈر کو وہ انقلابی معیار بھی عطا کرتے ہیں جو کہ عوام کے تحفظ و نجات کےلیے ضروری ہے۔ آج اس مقدس قومی و انقلابی فریضے کو نبھانے کی ذمہ داری  بی ایس او کے سر ہے۔ مادر علمی تنظیم بی ایس او ہی ایسی قیادت تراش کر عوام مکتی فراہم کر سکتی ہے اور سامراجی یلغاروں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔

سیکریٹری رپورٹ میں تنظیمی کارکردگی کا جاٸزہ لیتے ہوٸے ساتھیوں نے کہا کہ آج کے مشکل ترین عہد میں بی ایس او کے ساتھی مسلسل علم و دلیل اور ساٸنسی ڈسکشنز کے ساتھ سماج میں سیاست کر رہے ہیں اور مختلف قسم کی رکاوٹوں، ھٹ دھرمیوں، رویوں کے باوجود مسلسل علم و عمل میں کامیابی سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس عہد میں بی ایس او کے ساٸنسی کام کی ضرورت ہے اور ہمارے ساتھیوں کا قومی جذبہ اور پختگی کے ساتھ انقلابی عمل میں جُتے رہنا ہی اجتماعی نجات کا ضامن ہے۔

تنظیم ایجنڈے پر پر مباحثہ کرتے ہوٸے ساتھیوں نے کہا کہ کسی بھی محکوم قوم و طبقے کا واحد ہتھیار درست ساٸنسی نظریات سے جڑ کر منظم طریقے سے عمل کرنا ہے۔ اور اس وقت بی ایس او کا ساٸنسی نظریات پر کاربند رہنا اور کام کرتے رہنا تنظیم کے اعلٰی معیار اور کامیابی کا ثبوت ہے۔ تنظیمی ایجنڈے میں کیڈر سازی کے عمل کو مزید بڑھانے اور تیز تر کرنے کےلیے نومبر کے مہینے میں نیشنل اسکول منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ایک کورس تشکیل دینے کی حکمت عملی اپناٸی گٸی۔ پبلیکیشن میں بامسار کی پبلیکیشن اور اس کے معیار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوٸے ساتھیوں نے کہا کہ بامسار تنظیم کی اپنی ہی معیاری تخلیق ہے اور اس معیار کو برقرار رکھنا ہی اصل چیلنج اور ذمہ داری ہے جس پر ہمیں مسلسل اترتے رہنا ہوگا۔ اس کے علاوہ تمام زونز میں بک اسٹالز لگانے کا بھی فیصلہ لیا گیا اور غفار بلوچ کو مشترکہ طور پرمرکزی کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا۔ مزید براٰں مرکزی کمیٹی نے کچھ ارکان کی معطلی اور کچھ ممبران کی بحالی کے فیصلہ جات لیے۔

آخر میں آگے لائحہ عمل کے ایجنڈے میں مرکزی اراکین کے دورے اور مختلف ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا۔ طویل اور جامع مرکزی کمیٹی کی میٹنگ نے انقلابی حوصلوں کے ساتھ جہدء مسلسل کے فلسفے پر کاربند رہنے کا عہد کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.