واقعہ ڈھنک اور ہماری سیاسی زمہ داریاں

تحریر: سراج بلوچ

واقعہ ڈھنک صرف شہید ملک ناز اور برمش بلوچ کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ یہ پورے انسانیت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس واقعہ نے جہاں ہم سب کو متحد کیا وہیں پر یہ واقعہ ہماری زمہ داریوں کی طرف بھی ہمیں راغب کر رہا ہے۔ بلوچ ایکٹوسٹ یا آزادانہ خیال رکھنے والے طلباء تنظیمیں اس واقعہ کو کس نوعیت سے اُجاگر کرتی ہیں یہ ان تنظیموں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا واقعہ ڈھنک پہلا واقع ہے اس سے پہلے ایسے غلیظ واقعات نہیں ہوئی ہیں یا اب ہمیں یقین ہے کہ یہ جو برمش یکجہتی کمیٹی کی جانب سے پورے بلوچستان کے ساتھ پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں میں پرامن پروٹیسٹ ہونے کے بعد اب مزید ایسے واقعات ہمارے ساتھ وقوع پزیر نہیں ہونگیں؟ یقیناٙٙ ہم سب کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری ذہن میں نہیں کہ یہاں اور کیسے کیسے واقعات ہوسکتی ہیں ۔

تو لہٰذا پھر ہم اس کو اپنا سیاسی زمہ داری سمجھ کر اپنی حکمت عملی سے اس کے لیے کیا حل تلاش کرسکتے ہیں؟ ایسے بہت سے سوالات اس سانحہ کے حوالے سے ہماری زمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

آج جو ہر شہر، شہر، گاوں اور قصبوں میں ہر باشعور جوان کے ساتھ نیم شعور بچے ،پیر کماش، اور خواتین برمش واقعہ کے خلاف لب کشائی کرنے لگے ہیں یہ وہی افراد ہیں نا جو مدت سے خوف اور ظلم کے مارے کچھ بول ہی نہیں پا رہے تھے. آج ہمت جٹا کر کم از کم اپنے گھروں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ اس واقعہ کی مذمت کر رہے ہیں۔ یقیناٙٙ یہ ایک خوش کن عمل ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نا خواستہ پھر سے ہم اپنی پرانی جزباتی سیاست کو دہرا کر کچھ دن اس کھلی رسی کے ساتھ سیاسی جھولا جھول کر پھر سے اس کو طاقت ور کے ہاتھوں کھینچنے پر جو ہمیں نقصان ہوگا کیا وہ سیاسی نقصان مزید برداشت کر سکتے ہیں؟ یقیناٙٙ ہم سب یہی چاہتے ہیں کے پرانی غلطیوں سے سیکھ کر ہم اپنے آج کے سیاسی شعور کو مزید مظبوط کر سکیں. عدم تشدد کا راستہ اختیار کر کے پرامن راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔

ہمیں لوگوں کے اندر شمع کی طرح سیاسی شعور پھیلانا ہوگا ان کا یہ بے مقصد خوف ان کے دلوں سے نکالنا ہو گا اس نیک مقصد کے لیے ہمیں مل جل کر متحد ہونا پڑے گا اب اس سیاسی گیپ کو مزید فاصلہ دینے کے بجائے ہمیں سوچ سمجھ کے ساتھ اس کو جلد از جلد پر کرنا ہوگا۔

جہاں تک نیم شعور یافتہ لوگوں کے خیالات ہیں یا ان کے دلوں میں جو خوف بیٹھا ہوا ہے ہمیں ان سے گلہ شکوہ کے بجائے ان کے اندر پہنچ کر ان کا سیاسی استاد بننا ہوگا ان کے ساتھ وقت بیتا کر ان کے مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کی طرف جانا ہوگا ان کو بھر پور یقین دہانی دلا کر ان کو اپنے سیاسی دائرے میں واپس لانا ہوگا ۔

بقول مولانا آزاد کے انسان کی ذہنی اور فکری ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنے ذہن اور فکر پر پڑی ان زنجیروں کو توڑ نا ڈالیں جو اسے معاشرے اور فیملی نے پہنائی ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی لوگوں کے زہن سے اس بے شعوری کے پردے کو ہٹانا ہوگا جو اس فرصودہ ماحول کی وجہ سے چپک گیا ہے ۔

ہمیں لوگوں کو اس ریاست میں ان کا آئینی اور انسانی حق سمجھانا ہوگا اور اسی تسلسل کو لے کر اپنے حقوق کی دفاع کرنا ہوگا ہمیں تاریخ کے محرکات کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی پالیسیز کے تحت اپنے اس جدو جہد کو بڑھانا ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.