آن لائن کلاسز کے خلاف کوئٹہ سمیت 20 شہروں میں سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام احتجاجی مظاہرے منعقد ہونگے. بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بھرپور شرکت کرکہ بلوچ طلبا کا مقدمہ لڑے گی

مرکزی ترجمان, بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن 

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ مرکزی پریس ریلیز کے مطابق کہا گیا ہیکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے حکم نامے کے مطابق تمام جامعات آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیمی سال کو آگے بڑھائیں گے جسے ہم حقیقت کے منافی سمجھتے ہوئے رد کرتے ہیں

بلوچستان کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہاں انٹرنٹ تو درکنار پچاس سے زائد فیصد آبادی بجلی کی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہے جبکہ جہاں کوئی چھ آٹھ گھنٹے کی بجلی دستیاب ہے وہاں سیکیورٹی رسک کے بہانے انٹرنٹ سروسز باقائدہ بند کر دیئے گئے ہیں

علاوہ ازیں بلوچستان کے درماندہ طلباء جدید سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ خریدنے کی مالی سکت سے بھی محروم ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ بلوچستان کے طول و ارض میں رہائش پذیر طالب علم جدید تکنیک سے استفادہ حاصل کر سکے

ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت پاکستان نے جدید دنیا کی دیکھا دیکھی میں ورچوئل سکولنگ کا شوشہ تو چھوڑا ہے مگر یہاں کے زمینی حقائق دنیا کی جدید تکنیکی انفراسٹرکچر سے قطعی میل نہیں کھاتے
پاکستان کے سب سے بڑے شہروں میں بھی ہائی سپیڈ ان-انٹرپٹڈ انٹرنٹ ناپید ہے جبکہ مضافات میں ٹو-جی سروس تک میسر نہیں ہے. اور نا ہی ایسا تربیت یافتہ تدریسی عملہ ملک میں موجود ہے جوکہ آن لائن کلاسز کے طریقہ کار سے واقف ہو

دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی کورونا وائرس کے وبا سے شدید متاثر ہے جس سے تمام شعبہائے زندگی متاثر ہو چکے ہیں. اس حقیقت سے طلبا آشنا ہیں کہ جامعات کا کھلنا اس وقت ممکن نہیں ہے اور نا ہی یہ کوئی دانشمندانہ فعل ہوگا اس لئے طلبا متبادل ایجوکیشن کا خیرمقدم کرتے ہوئے آن لائن کلاسز لینے سے قطعی منکر نہ ہونگے مگر اس بڑی تبدیلی کے لئے ریاست کو اپنی تمام زمہ داریوں کو ہنگامی بنیادوں پر بروئے کار لانا ہوگا اور تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنی ہونگی جوکہ تاحال عدم توجہی کا شکار ہیں

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے تمام ہم خیال تنظیموں اور طلبا نمائندگان کے ساتھ مل کر طلبہ کی آواز کو منظم و توانا کرنے کی بھرپور جدوجہد کرے گی
اسی اثناء میں 23 جون کو کوئٹہ پریس کلب کے باہر سمیت ملک بھر کے 20 سے زائد شہروں میں اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے بینر تلے احتجاجی مظاہرے منعقد کیئے جارہے ہیں جس میں ہمارے مندرجہ زیل مطالبات شامل ہونگے

رواں تعلیمی سال کو معطل کرکہ تعلیمی بجٹ کو ڈبل کیا جائے اور تعلیمی انفراسٹرکچر کی تعمیر پر سرف کیا جائے, جس میں ملک کے تمام شہروں, دیہات اور قصبوں میں ہائی سپیڈ انٹرنٹ سروسز کی بحالی کیساتھ طلبہ کو لیپ ٹاپ اور ڈیجیٹل ڈیوائسز فراہم کی جائیں

فیسوں میں ستر فیصد کمی کی جائے، سرکاری و پرائیویٹ ہاسٹلز کی فیس ختم کی جائے اور آن لائن کلاسز کی مد میں ادا کی گئی فیس اسی تناسب سے واپس کی جائے

جن طلبا کا کورس ورک مکمل ہو چکا ہے انہیں اگلے سمسٹر میں پروموٹ کیا جائے

تدریسی عملے کو معیاری تربیت فراہم کرکہ انہیں ورچوئل سکولنگ کی نئی تبدیلی سے ہم آہنگ کیا جائے

تمام یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز کے نظام کو بہتر اور معیاری لرننگ مینیجمنٹ سسٹم متعارف کروا کر مؤثر بنایا جائے

تعلیمی اداروں کو ایس-او-پیز کے تحت کھولنے کا آپشن قابل عمل و دانشمندانہ فعل نہ ہوگا کیونکہ ملک کے اکثریتی طلبہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں, تو انہیں سفر کی دشواری کے ساتھ شہروں میں رہائش اور خوردونوش کے مسائل کا سامنا بھی ہوگا. لہذا کووڈ19 کے پیش نظر تعلیمی اداروں کو مکمل بند رکھ کر زندگیوں کے تحفظ کو ترجیح دی جائے

تعلیمی اداروں میں جمہوری اقدار اور طلبہ یونین بحال کی جائیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.