کوئٹہ: پنجاب کے جامعات میں بلوچستان کے طلبہ کی سکالرشپس ختم کرنا بلوچستان باسیوں کو مزید تاریکیوں میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ بی زیڈ یو ملتان کے باہر بیٹھے طلبہ مظاہرین کے مطالبات فوری تسلیم کیئے جائیں۔ سیکریٹری جنرل، بی ایس او کا پریس کانفرنس

کوئٹہ پریس کلب

!معزز صحافی حضرات


سب سے پہلے ہم آپ سب کے مشکور ہیں کہ آپ ہماری فریاد سننے یہاں تشریف لائے اور ہمیشہ کی طرح آپ سے یہی امید ہے کہ آپ ہماری آواز متعلقہ اداروں تک پہنچانے میں اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کریں گے۔


!صحافی حضرات


جیسے کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ بلوچستان کے طلبا کو پنجاب کے مختلف اداروں میں سکالرشپس دی گئی تھیں، جس سے کثیر تعداد میں طلبا مستفید ہوتے رہے ہیں اور بلوچستان کے دگرگوں حالات میں غریب طلبا کے لیے کسی غنیمت سے کم نہ تھی. لیکن پچھلے دنوں انتظامیہ نے سکالرشپس ختم کرنے کا اعلان کردیا اور یوں غریب صوبے کے طلبا کو مذید تاریکیوں میں دھکیلنے کا عمل شروع ہوا۔
ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے طلبا کو میسر سکالرشپس کا خاتمہ کرنا بلوچستان کے ساتھ دہائیوں سے جاری استحصال کا تسلسل ہے۔ جہاں کچھ مقتدرہ قوتیں نہیں چاہتی کہ بلوچ نوجوان تعلیم تک رسائی حاصل کرسکے۔


بلوچستان جو اس وقت خطے میں سب سے کم خواندگی کی شرح رکھنے والا علاقہ ہے اور اس پر بلوچستان کے اندر تعلیمی انفراسٹرکچر بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسی صورتحال میں صوبے سے باہر  ریلیف کے طور پر کچھ سکالرشپس دی گئیں جو کئی مجبور طلبا کیلئے واحد امید کی کرن تھی، لیکن وہ بھی حلقہ اقتدار کو قبول نہیں۔ اور اب وہ ان چند سکالرشپس، جس پر بلوچستان کا غریب طالب علم پڑھ لیتا ہے، چھیننے کے در پے ہیں۔


بلوچستان جسے دہائیوں سے شعوری طور پر پیچھے رکھا گیا ہے اور ہر ممکن حد تک ترقی کی راہ روکی گئی ہے، وہاں تعلیم جیسے بنیادی حق پر اس طرح ضرب لگانا، بلوچستان بھر کے طلبا کے مستقبل پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔


بلوچ وطن کو جہاں معاشی طور پر جمود کا شکار بنا رکھا گیا اور کوئی جدید ذرائع روزگار یہاں کی عوام کو نہیں دیئے گئے، ایسے میں غربت کی نچلی ترین سطح پر ذندگی بسر کرنے والے عوام سے آپ کیا توقعات رکھتے ہیں؟  اس معاشی و تعلیمی برباد حالی کے باوجود، ہمیں مذید سکالرشپس دینے کی بجائے یا غربت ذدہ حصے کو نئے مواقع فراہم کرنے کی بجائے، بر سر اقتدار طبقات ہمیں پہلے جو تھوڑا ریلیف میسر تھا وہ بھی چھیننے کے در پے ہیں. یہ نا صرف ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو تازہ کرنا ہے بلکہ ہمارے مستقبل کے ساتھ بھی کھلواڑ کے برابر ہے جسے ہم کسی صورت قبول نہیں کر سکتے۔

بلوچ طلبا کا احتجاجی دھرنا بہاؤلدین ذکریہ یونیورسٹی کے سامنے پچھلے کئی دنوں سے بیٹھا ہے اور تعلیم جیسے بنیادی حق کی خاطر ملتان کی گرمی میں دن رات ذلیل و خوار ہونے پر مجبور ہیں۔ آخر کیوں کر ظلم کی کسی بھی شکل کا پہلا نشانہ بلوچ طلبا ہوتے ہیں۔ بی زیڈ یو اور بہاولپور یونیورسٹی میں بلوچستان کے مخصوص کوٹے پر اس خطے کا غریب ترین نوجوان پڑھنے آتا ہے اور آج وہاں بھی تعلیم کے دروازے ان پر بند کیے جارہے ہیں جو نہ صرف خواندگی کے حوالے سے بلکہ معاشی و سماجی لحاظ سے بھی خطے کو پیچھے کی جانب دھکیل دے گا۔


احتجاج پر بیٹھے طلبا کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کے مذاکرات اور کمیٹی بنانا خوش آئند ہے لیکن اگر یہ بھی ماضی کی طرح صرف وقت گزاری اور مسئلے کو دبانے کا ہتھکنڈا ہوا تو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سادہ اور صاف الفاظ میں یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا اور ہماری سکالرشپس میں کمی کی کوششیں ہوتی رہی تو ہم احتجاج کا حق اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں اور ملک گیر سطح پر بلوچ طلبا کے حقوق کی خاطر نکلیں گے۔

طلبا کا وقت ضائع کرنے کی بجائے اور انہیں کلاس رومز کی بجائے روڈ پر دھکیلنے سے بہتر ہے کہ حکمران بلوچ طلبا کی فریاد سنیں اور ان کے احتجاج پر مسئلے کی نوعیت سمجھتے ہوئے تعلیم دوست پالیسی مرتب کرے جو دیرپا، جامع اور غریب نواز ہو۔


اس اثناء میں ہم ملک کے تمام اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد سے بیشتر بلوچ طلبا کی گزارشات کو سنیں اور ان کی مشکلات کا مداوا کریں. ہم  وزیراعظم عمران خان صاحب، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ بلوچستان کی بدحالی و پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اختیارات کو بروئے کار لا کر نہ صرف پرانی سکالرشپس اور تعلیمی پیکجز کو بحال کریں بلکہ ان میں مذید اضافہ کرکے تعلیم دوست و ترقی پسند ہونے کا ثبوت دیں۔

!شکریہ

   سیکرٹری جنرل بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن
     چنگیز بلوچ
سینئر جوائنٹ سیکرٹری بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن
      جیئند بلوچ

Leave a Reply

Your email address will not be published.