انتظار قیامت کا

تحریر: لالا ماجد

برستے ہوئے بادل اور آسمانی بجلی نے رات کو خوفناک بنا دیا تھا۔ الیاس باورچی میں سے پانی نکالنے میں مصروف تھا۔ بی بی ماہ جان ،نغمہ اور ماہ نور باورچی خانہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر الیاس کو دیکھ رہے تھے۔

ماہ نور دو سال کی تھی اور نادان تھی۔ بار بار اپنے ابو کے پاس جاتی اور اس کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتی، الیاس اسے اٹھا کر پیار کر کے واپس نغمہ کے گھود میں رکھ لیتا۔

بی بی ماہ جان جو الیاس کی ماں تھی الیاس سے مخاطب ہونے لگی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ الیاس بارش میں بھاگتا ہوا دروازہ کھولنے کیلئے گیا۔ جب دروازہ کھولا تو ان کا ہمسایہ تھا جو کچھ کھانے کیلئے لایا تھا۔ باورچی خانہ میں آتے ہوئے الیاس نے پلیٹ کھول کر دیکھا تو مچھلی کا سالن تھا۔ الیاس نغمہ کے ہاتھ میں پلیٹ دے کر واپس پانی نکالنے میں مصروف ہو گیا۔

رات کے گیارہ بج چکے تھے سب نے مل کر کھانا کھایا جو ہمسائے نے دیا ہوا تھا اور بی بی ماہ جان رو رو کے اپنے ہمسائے کیلئے دعا کرتی گئی۔ خیر، اس طرح اس کٹھن رات کو سورج کی روشنی نے ختم کر دیا۔

الیاس ایک بےروزگار شخص تھا مگر اپنے گھر والوں کا بہت بڑا سہارا تھا اور ان کا کھانا ہمیشہ ہمسایوں کے گھر سے ہی آتا تھا جس سے وہ شرم محسوس کرتا تھا مگر کیا کرتا مجبور تھا۔
گھر کے حالات دیکھ کر نغمہ نے کبھی اپنے شوہر سے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا جس بات کا الیاس کو بھی بخوبی علم تھا کہ اس غربت زدہ زندگی میں نہ وہ ماں کا حق ادا کر سکتا ہے نہ نغمہ کا اور نہ ہی پھول جیسی بیٹی ماہ نور کا حق ادا کر سکتا تھا۔

الیاس کو ایک گودام میں کام کرنے کی نوکری مل گئی جہاں اس کا دوست بھی کام کرتا تھا اور اس گودام میں کپڑے رکھے جاتے تھے اور بڑے بڑے کنٹینرز میں لوڈ بھی کیا جاتا تھا جہاں اس کو دن کے چار سو روپے مل جاتے تھے اور مہینے کے بارہ ہزار بنتے تھے۔

خیر یہ بات الیاس نے اپنے گھر والوں کو بتائی جس سے اس کے گھر والے بہت خوش ہوئے اور الیاس بھی کافی خوش تھا۔ تین سال لگاتار اسی گودام میں کام کرتا گیا اور اچانک ایک دن نغمہ نے کال کی کہ ماں کی طبیعت بہت خراب ہے اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہوگا۔ الیاس نے اپنے مالک سے کچھ پیسے مانگے تو اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا الیاس کے پاس چھ ہزار روپے پڑھے تھے جس سے اس نے ماں کا چک اپ کروایا اور دوائیاں لیں۔

الیاس اپنےگھر والوں کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس نے آج تک اپنے گھر والوں کو صرف روتے ہوئے ہی دیکھا تھا مگر خواہش پورا کرنے کیلئے پیسے درکار تھے جو الیاس کے پاس شاید کبھی بھی نہ ہوتے۔ الیاس اتنا سمجھ چکا تھا کہ فیکٹریوں میں گوداموں میں ہم جیسے مزدوروں کے ساتھ اس قدر ظلم ہو رہے ہیں جن کا ہم سے بیشتر مزدوروں کو علم تک نہیں ہوتا اور وہ اسی چار سو یا پانچ سو کے اوپر ہی خوش تھے اور اصل میں ان کے کام کا زیادہ تر حصہ مالک کے جیب میں ہی جاتا تھا۔

الیاس اگر زندگی بسر کر رہا تھا تو اس لئے کے اس کے اوپر تین افراد کی زمہ داری تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ اگر ہم مزدور ایک ہوگئے تو شاید ہم اپنا تھوڑا حق تو حاصل کر لینگے۔ الیاس اکثر گودام میں دوسرے مزدوروں سے اسی حوالے سے بات کرتا تھا اور دل ہی دل میں خوش ہو جاتا کہ ہم سب مزدور بھی اپنے گھروں میں وہ ساری خوشیاں دیکھیں گے جو ہر کوئی دیکھتا ہے۔

لیکن شاید الیاس یہ نہیں جانتا تھا کہ ایک مزدور کیلئے ایسا سوچنا حرام ہے اور اپنے حق کیلئے آواز اٹھانا عظیم گناہ بنا دیا گیا ہے۔ اور ہوا کچھ ایسے کہ الیاس نے یہ گناہ کر دیا اور دنیاوی مالک نے اسے نوکری یعنی مزدوری سے نکال دیا دوسرے لوگوں نے الیاس کو قیامت تک انتظار کرنے کو کہا اور اسی انتظار میں بی بی بی ماہ جان بھی چل بسی ،نغمہ نے ایک اچھی بیوی ہونے کا ثبوت دیا اور ماہ نور اتنا سمجھ چکی تھی کہ ہم غریب ہیں اور اگر کچھ مانگ لو تو دینے کے بجائے ابو رونے لگتے ہیں۔

ایسا صرف الیاس کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہر اس مزدور کے ساتھ ایسا ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے اور پھر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ تنگ ہوکر خودکشی کر لیتا ہے یا قیامت کا انتظار کر کر کے اس ظالم دنیا کے دنیاوی خداؤں کے ظلم برداشت کرتا ہوا چل بستا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.