بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس زیر صدارت مرکزی چیئرمین ظریف رند منعقد ہوا جس میں ملکی و بین الاقوامی تناظر سمیت تنظیمی امور، سیکریٹری رپورٹ اور آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔ جبکہ بی ایس او کے 53واں یومِ تاسیس پر کوئٹہ میں 27 نومبر کو ”طلبہ طاقت بحالی مارچ” کرنے اور تنظیم کے مرکزی آرگن ‘بامسار’ کے فوری اجراء کے اہم فیصلہ جات طے پائے۔

پریس ریلیز: مرکزی سیکریٹری اطلاعات و نشریات، اورنگزیب بلوچ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے مرکزی پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے بتایا کہ بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ظریف رند کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کارکردگی رپورٹ، ملکی و بین الاقوامی تناظر، تنظیمی امور، فائنانس، پبلیکیشن، طلبہ مارچ اور آئیندہ کے لائحہ عمل کے اہم ایجنڈے زیر بحث رہے، جبکہ اجلاس کی کاروائی سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ نے چلائی اور سیکریٹری رپورٹ سمیت زونل رپورٹس، تجاویز اور سفارشات پیش کیں۔

مرکزی اجلاس میں عالمی تناظر پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے موجودہ عہد کو بڑے چیلنجز کا دور قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ عالمی معاشی گراوٹ سے دنیا بھر میں عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ سرمایہ دار ریاستیں جو گلوبلائزیشن کی وکالت کرتے ہوئے دیگر ریاستوں کے ساتھ ایک ربط اور معاشی تعلق استوار کرنے کی بات کرتے تھے اب وہ فقط اپنی معیشتوں اور اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے نئے رشتے جوڈنے کی طرف بڑھ رہے ہیں جو کہ حتمی طور پر کمزور قومیتوں کے استحصال اور انکی وسائل کی لوٹ مار پر منتج ہوگا۔ انہی استحصالی پالیسیوں کی تکمیل میں آج بلوچ سرزمین لوٹ مار کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے اور بلوچ درماندہ عوام اپنے وطن میں نان شبینہ کا محتاج ہو چکے ہیں۔

ملکی صورتحال پر بات کرتے ہوئے اجلاس نے بحث کیا کہ ریاست کی معاشی کمزوری اپنی اظہار سیاسی عدم استحکام کی صورت میں کر رہی ہے جس میں سیاسی جماعتیں بندربانٹ اور اقتدار میں حصہ داری کی لڑائی لڑتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ محنتکش عوام کی ادنیٰ حاصلات پر بھی مسلسل کٹوتیاں لگائی جا رہی ہیں جس سے مزدوروں سے انکے روزگار اور طلباء سے تعلیمی مواقع پے در پے چھینے جا رہے ہیں۔

تنظیمی امور کے ایجنڈے پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے بی ایس او کو بلوچ قوم کی تاریخی یاداشت قرار دیکر کہا گیا کہ یہی وہ عظیم ادارہ ہے جس نے بلوچ قوم کی بکھری پرتوں کو جوڈ کر ایک قومی دھارے میں پرویا اور ایک کیڈرساز درسگاہ کے طور پر طلباء کی شعوری آبیاری کی۔ پرکھٹن حالات اور داخلی تضادات کے سبب زوال کے مراحل ضرور آئے مگر ہر زوال کے بعد نئی صف بندی کے ساتھ دوبارہ تعمیر اور بڑھوتری بی ایس او کی گراں بہا نظریات کی دین ہے جن سے کیڈرز کو آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ و شکتی ملا ہے۔

مرکزی قائدین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ پرکٹھن دور میں بی ایس او کے نظریات کا دفاع کرتے ہوئے اس ادارے کی بحالی کی جدوجہد درحقیقت قومی یاداشت کو محفوظ رکھنے اور طلبہ کو ایک بار پھر طاقتور کرنے کا عزم ہے جسے موجودہ قیادت دیدہ دلیری سے آگے بڑھا رہی ہے اور نوجوان نسل جوق در جوق بی ایس او کے کارواں میں شریک ہو کر قومی قیادت تراشنے کی تسلسل کو منزل مقصود کی جانب گامزن کیئے ہوئے ہیں۔

تنظیم کی کارکردگی رپورٹ کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ بی ایس او بلوچ سماج میں ایک بار پھر منظم و توانا آواز بن چکی ہے اور طلبہ حلقوں میں ایک مضبوط سیاسی بیانیہ منوانے میں کامیاب ہے جو کہ ساتھیوں کی مستقل مزاجی اور کمٹمنٹ کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ جو نوجوان خود کو سیاست و سیاسی عمل بیگانہ رکھنا چاہتے تھے اب وہ بی ایس او کے اس بیانیہ پر متفق ہوتے دکھائی دیتے ہیں کہ نوآبادی سماج کے اندر سیاست سے کنارہ کشی ناممکن اور فریب ہے اس لئے زمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے جمہوری حقوق کی جدوجہد کرنا لازم ہے۔ البتہ طلبہ کے اندر پائی جانی والی بے چینی اور ایک باقائدہ سمت و اہداف کے تعین کا فقدان تاہنوز موجود ہے جسے ایک فکری پروگرام کے تابع لا کر منزل کی جانب گامزن کرنے کی ضرورت ہے جس پر بی ایس او مؤثر حکمت عملی کے تحت عمل پیرا ہے اور فتح کی راہیں یقینی طور پر روشن ہیں۔

علاوہ ازیں زونل سطح پر آئے ہوئے سفارشات، تنقید اور تجاویز پر باریک بینی سے غور کرتے ہوئے ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کا فیصلہ بھی ہوا اور یہ عزم بھی دہرایا گیا کہ بی ایس او کی جمہوری اقدار کی یہی خوبصورتی ہے کہ سفارشات اور حکمت عملی زیلی ڈھانچوں کی طرف سے آتے ہیں اور ان پر بالائی ادارہ سنجیدگی سے غور و فکر کرکہ حکمت عملی ترتیب دیتی ہے اور انہی اقدار کی پاسداری کو آگے بھی یقینی بنایا جائے گا۔

آئیندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں مرکزی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ طلبہ مارچ کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بی ایس او کے یومِ تاسیس پر 27 نومبر کو کوئٹہ کے اندر ”طلبہ طاقت بحالی مارچ” کا انعقاد کیا جائے گا جس میں تمام ترقی پسند طلباء تنظیموں اور سیاسی جہدکاروں کو ساتھ ملا کر طلباء سیاست کی بحالی اور طلبہ قوت کی بحالی کے لئے مارچ کیا جائے گا۔ جبکہ لاہور، اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں طلباء مارچ کرنے والے تنظیموں کے کال کی حمایت کی جائے گی اور بی ایس او کے ساتھی جہاں موجود ہیں وہاں بلوچ طلباء کی نمائندگی کا فرض نبھائیں گے۔

اس کے ساتھ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی آرگن “بامسار” کے اجراء کا فیصلہ بھی لیا گیا جو کہ یومِ تاسیس سے پہلے شائع کیا جائے گا۔ اور تنظیمی وزٹ سمیت زیلی ڈھانچوں کی تعمیر، فائنانس اور نشر و اشاعت کی حکمت عملی بھی ترتیب دی گئی۔

آخر میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے فکری پروگرام کا دامن تھامے اتحاد، جدوجہد آخری فتح تک کے فلسفے کے تحت منزل مقصود کی جانب بڑھنے کا عزم کرتے ہوئے طلباء کی تمام بکھری پرتوں کو جوڈنے کا عہد کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.