بونا مخالف

تحریر: فرید مینگل

سیاسی انسان ایک مچھلی کی مانند ہوتی ہے جو ہمیشہ پانی یعنی عوام میں رہتا ہے کیونکہ طاقت کا سرچشمہ ہمیشہ سے عوام رہا ہے۔ عوام سے بڑی طاقت کہیں کوٸی نہیں۔ جب آپ سیاسی میدان میں عوام کے بیچ رہتے ہو تو اس دوران آپ کا سیاسی مخالف بھی اسی عوام میں موجود رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر وہ عوامی جذبات اور مفادات کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو عوام اس کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اگر بدقسمتی سے آپ کا مخالف فکری و نظریاتی حوالے سے پَست و سیاسی اخلاق و اقدار سے عاری اور عوامی و وطنی مفادات کے تحفظ میں ناکام ہو تو پھر وہ آپ کو عوام سے دور پھینکنے اور آپ کو سیاسی میدان سے غائب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اپنے اس مقصد کے لیے وہ قتل، کردار کشی، بے بنیاد الزامات سمیت کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

بی ایس او جب جب اپنے جوبن پر آیا ہے اور اپنے بنیادی فکر و نظریہ اور اپنے منزل کی جانب چُست و چسپاں اور توانا قدم اٹھایا ہے تو ریاست کے ساتھ ساتھ اس کے مقامی چیلے بھی بی ایس او کے اس رفتار و اس کے کارکنوں کے اس سیاسی کردار سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوٸے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بی ایس او جب جب عوام میں موجود رہا ہے اور ان کا نماٸندہ بنا ہے تب تب حاکم سمیت اس کے چھوٹے چھوٹے کرایہ دار منشیوں کو خوف لاحق ہوا ہے اور وہ اس کی مخالفت و دشمنی میں پستی و کمینگی کی انتہا میں گرتے چلے گئے ہیں۔

اس وقت بی ایس او اپنے درست فکر و نظریات اور حکمت عملیوں کے ساتھ ایک بار پھر عوام میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ بی ایس او کے خلاف شروع شروع میں ان فکری و نظریاتی ساتھیوں پر ھرزہ سرائی کی گٸی اور ان پر شدید قسم کے بھونڈے الزامات عائد کیے گئے۔ اس قبیح عمل سے کام نہ بنا تو ریاست نے بی ایس او کی پوری قیادت کو اٹھا کر زندان میں پھینک دیا مگر وطن کے یہ شیدائی بازیابی کے دوسرے دن اپنے فکری ساتھیوں کے درمیان پائے گئے۔ تب مخالف اور دشمن دونوں کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ پہلے سے زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔ کبھی غداری کا الزام، تو کبھی لاہوری پروجیکٹ، کبھی قوم دشمن تو کبھی وطن دشمن کبھی نظریاتی ڈیتھ اسکواڈ تو کبھی 7 رکنی ٹولہ، مگر درست نظریہ و فکر کے اسلحہ سے لیس عاشقانِ وطن کا یہ قافلہ چلتا رہا اور ساتھی ملتے رہے۔

بی ایس او کے کاروان سے گھبرانے والے ہمیشہ سے حاکم کی طرف سے عوام پر مسلط کردہ لوگ رہے ہیں جن کو اپنا اقتدار خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ چاہے وہ ماضی میں شہید فدا و شہید غلام محمد جیسے ہمارے اسلاف ہوں یا پھر آج کے کاروان کے ساتھی انہیں راستے سے ھٹانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ کسی کو قتل کر دیا گیا ہے تو کسی پر گھیرا اتنا تنگ کر دیا گیا ہے کہ وہ سیاسی میدان و عوام کو چھوڑ کر کہیں اور نکل جانے پر مجبور ہو۔

آج اس انقلابی کاروان سے گھبرانے والے حاکم کی طرف سے مسلط کردہ کئی کردار سامنے آرہے ہیں جن کے اسٹیٹس_کو کو بی ایس او فکری و نظریاتی طور پر چیلنج کر کے ان کا حقیقی عوام دشمن چہرہ عوام کے سامنے لانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے اور کسی حد تک لا چکا ہے۔ حاکم کی طرف سے مسلط کردہ یہ قوم دشمن و وطن دشمن کردار کہیں سرفراز بگٹی کی شکل میں ہیں تو کہیں ضیا لانگو، قدوس بزنجو، جام کمال و ظہور بلیدی کی شکل میں۔ ان تمام کرداروں سے ہم ہمیشہ ایک ہی توقع لگائے بیٹھے ہیں اور اب تک ہمارے توقعات پر یہ آلہ کار مسلسل اترتے رہے ہیں۔
بی ایس او کی قیادت اور اس انقلابی کاروان کے خلاف آج یہ کردار اسلم بلیدی اور ظہور بلیدی کی شکل میں نمودار ہوا ہے۔ یہ وہی ظہور بلیدی ہے جو شہید لمہ ملک ناز کے سفاک قاتل سمیر سبزل جیسے ڈیتھ اسکواڈی کارندوں کا رفیق رہا ہے اور بانک کریمہ کی شہادت کے بعد اسمبلی میں بیان دیتا رہا ہے۔ ان سے ہمیں ہمیشہ گھٹیاپن اور دشمنی کی ہی امید رہی ہے اور یہ رسم اس لشکر کا کوئی اور کارندہ کہیں اور مستقبل میں بی ایس او کے خلاف نبھائے گا۔ کیونکہ قوم دشمنی و وطن سے غداری ان دولت کے پجاریوں کے خمیر میں شامل ہے۔

لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ بی ایس او کے مخالفین اس وقت کالونائزر کی نفسیات کا شکار ہو کر انتہائی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور وہ مخالفت و دشمنی میں فرق کرنے سے عاری ہیں۔ ظہور بلیدی جیسے حاکم کے دلالوں سے وہی توقع تھی جو اس وقت وہ نبھا رہے ہیں مگر اپنے مخالفین کو ہم اتنا پَست قد اور بونا نہیں سمجھتے تھے۔

بی ایس او ہمیشہ درست فکر، درست نظریہ، اور درست سیاسی حکمت عملیوں کا پرچارک رہا ہے۔ اس نے اپنے کارکن پر ہمیشہ دشمن و مخالف کے فرق کو آشکار کیا ہے اور اس کو تعلیم دی ہے۔ بی ایس او کو اس سے قبل بھی دشمن کی طرف سے مسلط کردہ ایسے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مستقبل میں منزل کے حصول تک اس سے سخت حالات آتے رہیں گے۔ قومی جہد میں آسانی و آسودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ ہمیں بی ایس او کے فکر و نظریات اور قیادت پر پورا ایمان ہے کہ یہی وہ کاروان ہے جو اس تمام تر مسلط بربریت سے نجات دلائیں گی۔

بامسار کے اجرا سے پہلے ہم نے ان تمام تر معاملات پر غور کیا تھا اور اس پورے منظر نامے کا جائزہ لیا تھا کہ ہم پر حاکم اور مخالفین کی طرف سے ایک یلغار ضرور کی جاٸے گی۔ لیکن ہم مخالفین کے مخالف مورچے سے ہی نمودار ہونے کی توقع کر رہے تھے اور وہیں سے ان کے انتظار میں تھے لیکن یہ کم ظرف فکری و نظریاتی حوالے سے بونے و پست ”یار“ ظہور بلیدی جیسے قوم دشمن کے مورچے سے نمودار ہوئے۔
افسوس اس بات کا بھی نہیں کہ وہ بی ایس او کے قیادت کی کردار کشی میں انتہائی نچلی سطح تک گر چکے ہیں کیونکہ ہم ان کی فکری و نظریاتی نا پختگی اور کوتاہ سیاسی تربیت سے آگاہ ہیں۔ مگر ہمیں ان کے لیے افسوس اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ اتنا بونا نکلے کہ انہیں بی ایس او کی مخالفت کے لیے ظہور بلیدی جیسے کردار کے مورچے میں شامل ہونا پڑا۔ ہمیں ان کی اس فکری و نظریاتی پَستی کا دکھ ہمیشہ رہے گا کیونکہ وہ دشمن نہیں بلکہ مخالف ہیں، مخالف ہمیشہ اپنے ہوتے ہیں اور اپنوں کی پَستی کا دکھ کس کم بخت کو نہیں ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.