بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا تئیسواں قومی کونسل سیشن مادرِ وطن کے دفاع میں” بیاد میر عبدالعزیز کرد، بابو شیرو مری، حمید شاہین 02 تا 03 مارچ بمقام شال کامیابی سے اختتام پذیر ہوا۔ دو روزہ سیشن کے بعد جیئند بلوچ مرکزی چیئرمین منتخب ہوئے جبکہ حسیب بلوچ سیکریٹری جنرل اور سہیل بلوچ سیکریٹری اطلاعات منتخب ہوئے۔

رپورٹ: سیکریٹری انفارمیشن، بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا تئیسواں قومی کونسل سیشن مادرِ وطن کی دفاع میں” بیاد میر عبدالعزیز کرد، شیرو مری، حمید شاہین 02 تا 03 مارچ بمقام شال کامیابی سے اختتام پذیر ہوا۔ کونسل سیشن کی صدارت چیئرمین چنگیز بلوچ نے کی جبکہ سیشن کی کاروائی مرکزی سیکرٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے چلائی۔ سیشن میں سیکریٹری رپورٹ سمیت علاقائی و بین الاقوامی تناظر، تنظیمی امور اور آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے زیرِ بحث رہے اور مستقبل کے اہداف کا تعین کیا گیا.

سیشن کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اور بلوچ قومی ترانہ سے کی گئی جسکی سعادت بصیر بلوچ نے حاصل کی۔

کونسل سیشن کی بحث کا آغاز مرکزی چیئرمین نے اپنے افتتاحی خطاب سے کیا اور میزبان زون کی تیاریوں کو سراہا۔ بی ایس او کے ساتھیوں کو کامیاب سیشن کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔

چیئرمین چنگیز بلوچ کا کہنا تھا کہ ہزارہا مشکلات و رکاوٹوں کے باوجود بھی آج ہم کونسل سیشن کا انعقاد کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں یہ کاوش خود میں ایک تاریخی قدر رکھتی ہے۔ بلوچستان کے اندر مسلسل سیاسی جبر کے باوجود بھی ہم انقلابی جوش و جزبوں کے ساتھ مسلسل کام کرنے اور مسلسل حرکت میں رہنے میں ثابت قدم رہے ہیں یہ امر بطور محکوم قوم کے پرفخر باب کے طور پر ہماری قومی یاداشتوں کا حصہ رہیگا۔

بلوچستان میں جاری یلغار، آئے روز جبری گمشدگیوں میں شدت و اضافے، سیاست پر اعلانیہ و غیر اعلانیہ بندشوں کے باوجود آپ تمام ساتھی نہ صرف انقلابی سیاست سے جڑے رہے ہیں بلکہ قومی ذمہ داریوں کو بھی مضبوطی سے نبھایا ہے۔ تمام تر دشواریوں اور بندشوں کو ایڑی تلے روند کر اپنی زات اور انا کو شکست سے دوچار کرکے یہاں تک کا سفر طے کیا ہے ۔

بی ایس او کی تشکیل وقت و حالات کو پرکھتے ہوئے سماجی ضرورتوں کو خاطر خواہ لاکر سائنسی بنیادوں پر استوار سماجی حقیقتوں کے گرد گھومتی موجود ٹھوس مادی اسباب کا مطالعہ مشاہدوں کے انقلابی تنظیم کی تشکیل عمل میں لائی گئی اور دھائیوں سے نئے ڈسکورسز کو کھول کر معروضی حالات کا جائزہ لیتے رہے۔

آج بھی وقت کی اہم ضرورت ہے کے بی ایس او کے نوجوان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کیڈرسازی کے عمل پر خصوصی توجہ دیں تاکہ آنے والے وقتوں میں حالات پر قابو پانا ممکن ہو سکے۔

جس کے بعد سیشن کے پہلے ایجنڈے کا باقاعدہ آغاز سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے کرتے ہوئے سیکریٹری رپورٹ پیش کی۔ تنظیمی کارکردگی پر تفصیلی و جامع رپورٹ کے بعد ایجنڈے کو باقاعدہ تنقید، تجاویز اور بحث کیلئے کھولا گیا اور سیکریٹری رپورٹ کو مزید بہتر بنانے کیلئے تجاویز لیئے گئے۔

سیکرٹری رپورٹ میں تنظیمی کارکردگی کا مفصل جائزہ پیش کیا گیا اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں قومی سیاست و سماجی کیفیت کا جائزہ بحث میں شامل کیئے گئے۔ تنظیمی کام کو دگرگوں حالات کے اندر آگے بڑھانے کیلئے سائنٹفک میتھڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام اہداف کو کامیابی سے حاصل کیا گیا۔ جس میں بلوچ قومی تحریک میں طلباء کے کردار پر سیمنار، مفت تعلیم و طلباء کو درپیش دیگر مسائل پر احتجاجی مظاہرے، تنظیمی ساتھی ھانی بلوچ کی پہلی برسی کے مناسبت سے تعزیتی ریفرنسز کا انعقاد، کیڈر بیسڈ ریجنل سکولز و نیشنل سکول کا انعقاد، اسٹوڈنٹس کے تحریکوں کی قیادت، بی ایس او کی یومِ تاسیس، تحریک میں شرکت، بُک اسٹالز، تربیتی سٹڈی سرکلز، تنظیمی آرگن بامسار کی اشاعت، اور دیگر اہم ایونٹس کے ذریعے تنظیمی کام و پرچار کو اہم جست پہنچائی گئی۔

سیکریٹری رپورٹ پر کونسلران نے اہم نکات پر بات رکھی اور بحث کو مزید ڈیویلپ کرتے ہوئے تنظیمی بیانیہ کو مضبوطی پہنچائی۔ کیڈرساز ادارے کے طور پر بی ایس او کی تعمیر و تشکیل کے حوالے سے مختلف حکمت عملیوں پر غور و خوض کیا گیا۔

بعد ازاں دوسرے سیشن میں ملکی و بین الاقوامی تناظر پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے کہا گیا کہ عالمی سطح پر اس وقت سرمایہ دارانہ نظام شدید زوال کا شکار ہو چکی ہے اور اسکے ڈھانچے دنیا میں کہیں پر بھی مستحکم نظر نہیں آتے ہیں۔ گریٹ پاور بننے کی تگ و دو میں مگن سرمایہ دارانہ ریاستیں آپسی رسہ کشی کے باعث داخلی تضادات کی آماجگاہ بن چکی ہیں عالمی سرمایہ داری کے چیمپئنز جو کہ دنیا بھر کا ٹھیکیدار بنی پھرتی تھیں آج وہ اپنے داخلی تضادات سے باہر نہیں نکل پا رہی ہیں۔ انکی معاشی زوال نے سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے جو مختلف خطوں میں آج سامراج شکست سے دوچار ہوتی نظر آتی ہے۔

اس صورتحال میں تیسری دنیا سب سے زیادہ خطرے میں ہے اور کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی انہیں بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی مثال اس وقت ایتھوپیا کی ہے جہاں پیچیدہ سیاسی اور فوجی حرکیات، وزیراعظم ابی احمد کی حکومت کو درپیش متعدد اہم پیشرفتوں اور چیلنجز کو اجاگر کرتی ہیں۔ ایسی ہی مثال میانمار کی ہے جہاں بڑھتے ہوئے تنازع، مختلف مزاحمتی گروہوں کی طرف سے باغیوں کی کاروائی تقریباً تین سال قبل اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوجی عوام کیلئے ایک اہم خطرہ ہے۔ آرمینیا اور آزر بائیجان کے درمیان ناگورنو کار اباخ پر تنازع اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جن کے بالواسطہ اور بلاواسطہ اثرات بلوچستان پر بھی پڑیں گی جو مزید بربادیوں کا باعث بنیں گی۔

بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی سماجی حالات پر کنٹریبیوشنز کی گئی جس میں چین کا عالمی سامراج کے طور پر ابھر کر سامنے آنا اور اپنی داخلی تضادات سے نمٹنے کیلئے دیگر مظلوم قومیتوں اور انکے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے نئی معاشی پالیسیز کا سہارا لے رہی ہے۔ بحث میں کہا گیا کہ امریکہ اپنی طاقت کو پھیلانے کیلئے دیگر خطوں میں پہنچا تھا لیکن چین اپنے آپ کو سہارا دینے کیلئے سامراجی روپ دھار چکی ہے جوکہ محکوم اقوام کو کوئی حاصلات پہنچانے کے بجائے انکے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لے گا۔ بلوچستان میں سامراجی یلغار نے بلوچستان کے عوام کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا ہے۔ گوادر میں حق دو تحریک اور بلوچستان بھر میں شہید بالاچ کی شہادت پر عوامی ابھار دیرینہ مسائل کے خلاف مجتمع نفرت کا اظہار ہے جو اپنی راہیں خود تلاش کر رہی ہے اور تحریک کے امکانات مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔

بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ طلباء یونین پر پابندی اور طلباء سیاست کو کمزور کرنے کے حوالے سے انتظامی بندشیں طلباء کی بے چینی کو مزید بڑھاوا دے رہی ہیں اور جلد یا بہ دیر طلباء بھی اپنا راستہ تلاش کریں گے۔ اس کیلئے مضبوط طلباء طاقت کی تعمیر وقت و حالات کی اہم ترین ضرورت ہے جوکہ طلباء تحریک کو منظم کرتے ہوئے اسکے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔

دوسرے روز تنظیمی امور کے ایجنڈے کو بحث کیلئے کھولا گیا۔ جس پر تنظیم کی اہمیت و افادیت پر سیر حاصل بحث رکھی گئی۔ تنظیم کے تاریخی اتار چڑھاؤ اور طاقت و کمزوریوں پر روشنی ڈالی گئی۔ اہداف کو عبور کرنے کے حوالے سے حکمت عملیوں پر تنقیدی جائزہ لیا گیا اور نئی حکمت عملیاں ترتیب دی گئیں۔

علاوہ ازیں فائنانس، تشہیر و اشاعت، تنقید برائے تعمیر اور آئین و منشور پر تفصیلی بحث ہوئی اور حکمت عملی ترتیب دی گئی۔

جس کے بعد چیئرمین چنگیز بلوچ نے اپنا اختتامی خطاب کرتے ہوئے کونسل سیشن کی کامیابی پر تمام کونسلران کو مبارکباد پیش کی اور مشکل وقت میں کھڑے رہنے پر داد دیا۔ تنظیم سے اجازت لیتے ہوئے انہوں نے بی ایس او کو اسکے حقیقی جائز مقام تک پہنچانے کیلئے ارکان کو نظریات سے جڑے رہنے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی تلقین کی۔

آئیندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے میں الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جسکے مطابق چیئرمین چنگیز بلوچ کمیشن کے سربراہ چنے گئے جبکہ سیکرٹری جنرل اورنگزیب بلوچ اور سیکرٹری اطلاعات فرید مینگل الیکشن کمیشن کا حصہ بنے۔

انتخابات کے بعد بند اجلاس کا باقائدہ اختتام بی ایس او اور انقلاب کے نعروں کے ساتھ کیا گیا۔

تنظیم کے نئے کابینہ کیلئے مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے پوزیشن پر کونسلران نے اپنے درخواستِ نامزدگی جمع کیئے۔ جسکے مطابق چیئرمین جیئند بلوچ، سینئر وائس چیئرمین شیر باز بلوچ، جونیئر وائس چیئرمین نصیر بلوچ، سیکریٹری جنرل حسیب بلوچ، سینئر جوائنٹ سیکریٹری آصف نور بلوچ، جونیئر جوائنٹ سیکرٹری سدھیر بلوچ اور سیکریٹری اطلاعات سہیل بلوچ بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ اور مرکزی کمیٹی کے آٹھ پوزیشنز پر آٹھ کونسلران نے ہی درخواستِ نامزدگی جمع کیئے جس کے مطابق وھید انجم، عثمان بلوچ، رُخسار بلوچ، سراج بلوچ، ظہور بلوچ، ندیم بلوچ، فرید بلوچ، اور بلال بلوچ بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.