نوید بلوچ کے گھر پر سی ٹی ڈی کا چھاپہ، چادر و چار دیواری کی پامالی، خواتین و بچوں کو زد و کوب کرنے اور نوید بلوچ کی جبری گمشدگی کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور نوید بلوچ کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مرکزی ترجمان، بی ایس او

مرکزی ترجمان، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہیکہ کل رات بی ایس او کے ممبر نوید بلوچ کے گھر پر سی ٹی ڈی کی جانب سے چھاپہ مارا گیا، خواتین و بچوں کو زد و کوب کرکہ نوید بلوچ کو ماورائے عدالت و قانون گرفتار کرکہ لاپتہ کر دیا گیا ہے۔

سیکیورٹی اداروں کی جانب سے آئے روز پرامن شہریوں کے گھروں پر حملہ کرکہ چادر و چاردیوراری کی پامالی، عورتوں اور بچوں کی قتل و غارت اور نوجوانوں کو بنا کسی جرم کے لاپتہ کر دینا اداروں نے اپنا رواج بنا لیا ہے اور یہ ادارے آئین و قانون کو پامال کرتے ہوئے خود کو احتساب و جواب دہی سے مبرا تصور کر چکے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہو رہی ہیں، لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں لیکن عوام کی آہ و زاریاں سننے والا کوئی نہیں۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر بنائے گئے سیکیورٹی ادارے آج عوام کیلئے وبال جان بن چکی ہیں۔ اور آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن سے انسانیت بھی شرمندہ ہو، مگر صاحب اقتدار حکمران طبقات ٹس سے مس نہیں ہوتے اور اسمبلیوں میں اپنے اقتدار اور حصہ داریوں کی جنگ میں مصروف ہیں۔

مزید کہا کہ 2 اکتوبر کو سی ٹی ڈی کی جانب سے رات کے چار بجے چیئرمین ظریف کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور انکا 10 سالہ بھتیجا رامز کو چھ گولیاں مار کر شہید کیا جبکہ رامز کا آٹھ سالہ بھائی رایان کو ٹانگ پر گولی مار دی۔ عورتوں اور بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس میں رامز کی والدہ زخمی ہوئیں اور والد کو ساتھ اٹھا کر لے گئے۔ بعدازاں انکے نام آیف آئی آر درج کی گئی کے رامز کو اسکے باپ نے قتل کیا ہے۔

دس اکتوبر کو سانحہ ہوشاب نے پھر سے عوام کے غم و غصے میں اضافہ کیا جس میں دو کمسن بہن بھائی پیرا ملیٹری فورسس کی جانب سے مارٹر گولہ فائر کرنے سے ملی بنت واحد اور اللہ بخش بنت واحد کی لاشیں فدا چوک پر دو دن تک دھرنا دینے کے بعد شال کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ ان واقعات کے پیش نظر یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیکیورٹی ادارے خود حالات کو خراب کرنے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔

آخر میں کہا کہ نوید بلوچ ایک پر امن سیاسی کارکن ہے اور انکے گھر پر چھاپے کی پرزور الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے حکام بالا سے اپیل کرتے ہیں کہ نوید بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف نوٹس لیکر جلد از جلد انہیں منظر عام پر لایا جائے۔ لواحقین کی جانب سے نوید بلوچ کی جبری گمشدگی کا ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست بھی پولیس نے مسترد کر دی ہے جوکہ آئینی حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ اگر نوید بلوچ نے کوئی بھی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور آئین و قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ مگر بنا کسی جواز کے پر امن نوجوانوں کو غائب کر کے انکے عزیز و اقارب اور لواحقین کو ازیت دینا از خود ایک دھشتگردانہ عمل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.