جامعہ بلوچستان: ہراسمنٹ سے اغواء کاری تک

تحریر: سازین بلوچ

بچپن سے میں یہ سنتی آ رہی ہوں کہ؛ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب.. لیکن آج جوان ہونے کے بعد اغواء کاری اور قتل و غارت اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد محسوس ہو رہا ہے کہ نہیں، ہمیں غلط گائیڈ کیا گیا تھا۔ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی گئی تھی۔ جس سے ہمیں یہ بتایا جاتا تھا کہ پڑھو اور نواب بنو اور پھر ظلم کرو۔ اگر نہیں پڑھا تو تم غلط کاموں پے لگ جاؤ گے تباہ ہو جاؤ گے۔۔۔ مگر نہیں!

جیسے کہ کارل مارکس نے کہا تھا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے پہلے سانحے اور پھر تماشے کی صورت میں۔ کارل مارکس کے بولے ہوئے الفاظ آج جامعہ بلوچستان کے ہر مکتبہ فکر کی کانوں سے گونجتے ہوئے مین گیٹ سے بوائز ہاسٹل تک یہ پیغام پہنچا رہے ہیں کہ تاریخ خود کو دہرانے میں کامیاب کردار ادا کر رہی ہے۔ جامعہ بلوچستان کی انتظامیہ کی شکل میں ضیاء آمریت واپس زندہ ہو رہی ہے۔

چلیں زرا جامعہ بلوچستان کے دو سال پہلے کے واقعات پر نظر دوڑاتے ہیں۔ فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، میس میں بریانی کے ساتھ ایک کاکروچ کا تحفہ، اساتذہ سے سوالات کرنے کے بعد جی پے اے میں کٹوتی، پانی کی صورت میں جراثیم سے بھرپور اور لزیز گندے مشروبات, آئے دن طلباء کی تزلیل، رزلٹ میں دھاندلی، اساتذہ نہ ہونے تک تو طلباء برداشت کر رہے تھے لیکن 2019 کو یوں ہوا کہ ایک جامعہ نے جامعہ سے کم اور ایک بازار کی کردار زیادہ نبھا لی۔۔ جی ہاں!

تو یوں ہوا کہ باپ بول بول کر انہی منہ بولے باپوں نے اپنے ہی بیٹیوں کو ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا۔ لیکن حسبِ روایت ظالم ظلم کرتے ہوئے بھی بے گناہ ٹہرا اور مظلوم ظلم سہتے ہوئے بھی گناہگار بن گیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی مجھے اس بات پے حیرانگی ہوئی کیونکہ یہ تسلسل آج یا کل کا نہیں یہ تو سرمایہ دار طبقے کی بنائی گئی ایک جال ہے کہ جس میں ہمیشہ مظلوم پھنس جاتا ہے اور خود کو نکالنے کے بجائے اس جال کو اپنا مقدر سمجھ کے جال سے دوستی کر لیتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا محنتکش طبقہ ذہنی طور پر مفلوج ہے؟ یا اپنا سرمایہ چھن جانے کی ڈر سے اور پیٹ کی خاطر خاموشی اختیار کر لیتا ہے؟

ان سوالات کے جوابات بہت گہرے سمجھے جاتے ہیں اور مزے کی بات کہ مظلوم ان سوالات کے جوابات تو دور کی بات، ایسے لوگوں سے بھی دوری اختیار کر لیتے ہیں جو ان سوالات کے جوابات نکالنے کی جستجو کر رہے ہیں۔
لیکن پرولتاریہ نے فرانسیسی انقلاب کے بعد ان سوالات کو سمجھنے اور ان پے بات کرنے کی اہمیت سمجھ لی کیونکہ وقت بہت ظالم چیز ہے کبھی کبھار اونچائی کے خواب دیکھاتی ہے تو کبھی زمین پر ہی گِرا دیتی ہے۔
جیسے کے لینن نے کہا تھا کہ ” ایسی دہائیاں گزرتی ہیں جہاں کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اور ایسے ہفتے ہوتے ہیں جہاں دہائیاں برپا ہو جاتی ہیں۔”

میں لینن کی بات کو مزید واضح کروں کہ کیسے کبھی کبھار دہائی بھی ایسے لگتے ہیں جیسے کہ ماتم کا سماں ہو لیکن خاموشی کا روزہ رکھے لوگ صرف اور صرف تماشائی بنتے ہیں اور کبھی کبھار لینن جیسے انقلابی جنونیت کے لوگ صرف تماشا نہیں دیکھتے بلکہ آپ کو ان زنجیروں میں جکڑے ہوئے سماج سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تو 2019 کی ہراسمنٹ اسکنڈل کے بعد طلباء خاموش تماشائی نہیں بنے بلکہ طلباء یونینز کی بندش کے باوجود وہ مسلسل جہد کرتے رہے۔ لیکن ظالم پھر بھی ظالم ہے مظلوم کی آہ سننے سے زیادہ اپنا سرمایہ بچانے کی کوشش کرتا ہے تو ان حاکم وقت نے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے طلباء کو وردی پہنانے کا سوچا لیکن طلباء نے یہاں بھی ہار نہیں مانی اور اس فرسودہ نظام کے سامنے سر اٹھا کے ان حکمرانوں کو للکارا۔

وائس چانسلر کے تبادلے کے بعد بھی کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا پھر سے ایک کٹپتلی آکر سیٹ پہ بیٹھ گیا۔ ظالم وہی حکمران وہی بس چہرہ اور ظلم کرنے کا انداز تبدیل ہو کر ہراسمنٹ سے اغواء کاری تک پہنچ گیا۔ اب طلباء ہاسٹلز میں بھی محفوظ نہیں ہیں ، تعلیمی اداروں میں محفوظ نہیں ہیں۔ تبھی تو میں کہہ رہی تھی کہ بچپن میں ہمیں غلط گائیڈ کیا گیا تھا پڑھنے لکھنے کے بعد بلوچستان میں نواب بننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سیاست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پڑھ لکھنے کے بعد یہاں بیشتر طلباء قیدی بن کے عقوبت خانوں کی زینت بن جاتے ہیں۔

ابھی دو طالب علم جو اپنے گاؤں سے شال میں تعلیم حاصل کرنے نکلے تھے لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ بلوچ ہیں۔ مطلب کہ وہ کہیں پے بھی محفوظ نہیں خواہ وہ گھر ہو یا تعلیمی ادارہ۔ تو یوں ہوا کہ جامعہ بلوچستان سے پچھلے ہفتے انتظامیہ کی ناک کے نیچھے سے دو جوان طالب علم اٹھائے جاتے ہیں اور ہر دو قدم میں کیمرہ ہونے کے باوجود انتظامیہ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ آخر انکو کون لے کر گیا۔

اتنے کیمروں کی بیچ سے صرف دو مخلوق ہی نکل کے فرار ہو سکتے ہیں ایک جنات اور دوسرا ایلینز۔۔۔ معذرت کے ساتھ اگر تیسرا کوئی بچ کے نکلتا ہے تو وہ جامعہ کی انتظامیہ ہی ہوسکتی ہے۔ جیسے کہ مشہور فلسفی کارل مارکس نے کہا تھا کہ ” وہ جنہوں نے سردی گرمی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے” جی جناب تو ہمارے وائس چانسلر صاحب صرف مظلومیت دیکھتا ہے محسوس کرنے کی سکت اس میں اسی لئے نہیں ہے کیونکہ وہ کبھی مظلوم رہے نہیں ہیں۔ تو وہ مظلوموں کی قیادت کیوں کرے گا اور ایسے حکمرانوں کو ظلم کرتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں ہوتی کیونکہ بقولِ کارل مارکس کے ” شرمندگی کا احساس ہونا بھی انقلابی جذبہ ہے”

مختصراً جامعہ بلوچستان میں اب تعلیمی نصاب نہیں پڑھائے جاتے ، تعلیمی سرگرمیاں نہیں کروائی جاتی ، پروفیشنل لوگ نہیں نکالے جاتے ، یہاں سائنسدان پیدا نہیں ہوتے۔ یہاں تو بس سیاستدان پیدا ہوتے ہیں کیونکہ جس پے گزرتا ہے وہی محسوس کرتا ہے۔ اب جامعہ بلوچستان کا بچہ بچہ انقلابی شعور رکھتا ہے کیونکہ سیاست انسان کو لڑنا سکھاتا ہے، بولنا سیکھاتا ہے اور اب جامعہ بلوچستان کے طلباء بولنا سیکھ گئے ہیں۔ اب یہاں سے ہر بچہ شعور یافتہ ہو کے نکلے گا۔ اب ظالم خاموشی سے ظلم کر کے یوں تاریک راتوں میں مظلوموں کی چیخ کو نہیں دفنا سکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.