سفاک سرمایہ دارانہ نظام اور محکوم بلوچ

تحریر: سجاد بلوچ

عالمی سطح پر جس تیزی سے حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اس کے اثرات ملکی سیاست و معیشت پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس وقت سرمایہ دارانہ عالمی میدان ایک جنگی اکھاڑہ بن چکا ہے عالمی سامراجی طاقتوں پر ایک جنگی جنونیت کی کیفیت طاری ہوئی ہے، اسی جنگی نفسیات کے باعث سامراجی طاقتیں نئی صف بندیاں کر رہے ہیں، سامراجی ممالک اپنی منڈیوں کو پھیلانے اور دوسرے چھوٹے چھوٹے ریاستوں پر اپنا تسلط جمانے کے لیے ایک دوسرے کا گریباں چاک کر رہے ہیں۔

روس جیسے سامراجی ملک اپنی جارحانہ رویوں کو برقرار رکھتے ہوئے یورکرین جیسے کمزور ملک پر چڑھاٸی کر چکا ہے، تو دوسری جانب نیٹو اتحادی اپنی توسیع پسندانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے روس کی جارحانہ رویوں کے خلاف یوکرین کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں اور یوکرینی افواج کو براہ راست جنگی ہتھیار مہیاء کر رہے ہیں تاکہ روس اپنے حدود و قیود سے باہر نکلنے کی کوششیں ترک کر دے، اور یوکرین، نیٹو اتحادیوں میں شامل ہوجائے تاکہ یہ سامراجی گروہ اور بھی زیادہ مضبوط و مستحکم ہو، اور زیادہ سے زیادہ اپنے حدود و قیود پھیلانے میں کامیابی حاصل کر سکے۔

اسی سرمایہ دارانہ نظام کے ماتحت حالیہ دنوں سری لنکا میں معاشی دیوالیہ پن ہونے کے باعث عوامی سطح پر ہمیں مزاحمتی تحریکیں نظر آرہے تھے اور اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ تمام تر ملکی خزانے سے لے کر تجارتی مراکز، فیکٹریاں، شورومز، مِل وغیرہ پر چند حکمرانوں نے اپنا قبضہ جما لیا تھا باقی دیگر ملک کے اَسّی فیصد لوگ معاشی طور پر تباہی و بربادی کی زد میں تھے، اسی لوٹ کھسوٹ اور نابرابری کو ختم کرنے کے لیے سری لنکن عوام مسلسل احتجاجات جلسے جلوس کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، اور بھوک و افلاس کے مارے سری لنکن عوام نے سفاک حکمرانوں کی رہائش گاہوں پر بھی حملے کر دیے تھے۔

انہی سامراجی طاقتوں کو شکست دینے کے لیے آج دنیا بھر کے مظلوم و محکوم قومیتوں کے استحصال زدہ طبقات مسلسل جدو جہد کر رہے ہیں وہ انہی سامراجی طاقتوں کو چیلنج کرتے ہوئے ان کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر ابھر رہے ہیں، بھلے آج ملکی و بین الاقوامی سطح پر ہمیں وہ پلیٹ فارم نظر نہیں آرہا ہو جو ان تمام تر بھکرے ہوئے محنت کشوں کی توانائیوں کو یکجاء کرکے انہیں مظبوط و منظم بنا سکے اور ان کی شکتیوں کو ایک کامیاب سمت مہیا کرسکے، مگر پھر بھی آئے روز انقلابی شورشیں برپا ہو رہے ہیں اور تیزی کے ساتھ عالمی سطح پر چھاتر چھایہ بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں جو حاکمِ وقت کے کارستانیوں کے خلاف خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔

یہ بوسیدہ سرمایہ دارانہ اجارہ داری اپنی آخری مدت پوری کر چکی ہے اب مزید اس نظام میں وہ گنجائش باقی نہیں رہی جو دن بدن کے بڑھتے ہوئے سماجی معاشی سیاسی مسائل کا حل تلاش کرسکے، یہ سرمایہ دارانہ سماج اب کھوکھلے پن کا شکار ہو گیا یہ نظام اب زوال کی جانب روانہ ہو رہی ہے شاید یہ اس کی آخری صدی ہو، ہمیں ہر جگہ ہر ادارے میں یہی شور شرابہ اور غل غپاڑہ نظر آرہا ہے کہ یہ صدی سرمایہ دارانہ اجارہ داری کی آخری صدی ہوگی اس کے بعد سامراجی ادارے اپنی شکتیاں کھو بیٹھیں گے اور تمام تر سامراجی طاقتوں پر محنت کشوں کا قبضہ ہوگا اور محنت کش اس سماج کو اپنے طابع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، اور محنت کش اپنے شب و روز کی محنت کے بل پر ایک ایسا سماج کے تعمیر کرینگے جو نابرابری، نا انصافی، اشیاء کی نا منصفانہ تقسیم، ظالم کی ظلم و جبر سے پاک سماج ہوگا۔

ملکی سطح پر پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بھی ہمیں بدترین سیاسی و معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے آج پورے ملک میں بیروزگاری، لاعلاجی، بدترین مہنگائی کے باعث غربت کے مارے لوگ بھوک ننگ سے تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ملک کے بیشتر پیداواری ذراٸع پر حکمران طبقات کا قبضہ ہے جو محنت کش مزدوروں کے حقوق غصب کررہے ہیں اور ان کی محنت و مزدوری سے بننے والے پیدوار کو اپنے تجوریوں اور گوداموں میں جمع کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی شرح بہت تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔

مگر بد قسمتی سے اس بحرانی کیفیت پر قابو پانے کی بجائے ملک کے دائیں بازو کے اقتدار کےلیے بھوکے سیاسی جماعتیں ابھی تک اقتدار پر اپنا قبضہ جمانے کی کوششوں میں مصروف عمل دیکھائی دے رہے ہیں۔

پچھلے عمران نیازی کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ملک کے اپوزیشن جماعتوں نے ستمبر 2020 میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے ایک اتحاد بنایا تھا جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن تھے۔

پی ڈی ایم کا مقصد اس وقت موجودہ کرپٹ عمران نیازی کی حکومت ک کا تختہ الٹ دینا اور اس کی جگہ ایک نئی حکومت قائم کی جائے۔ اور حقیقتاً آج پی ڈی ایم اپنی جہد میں اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت و مکمل تعاون سے کامیاب ہوگیا ہے مگر عوام سے کیے وعدوں پر عمل درآمد کرنے سے قاصر دکھائی دے رہا ہے، آج ملکی حکومت کی باگ ڈور پی ڈی ایم کے قائدین کے ہاتھوں میں ہے۔ پی ڈی ایم کے قائدین و رہنماء بھی اسی حکومت کا حصہ ہیں مگر پھر بھی حالات وہی کے وہی ہیں میں سمجھتا ہوں پچھلے حکومت سے زیادہ موجودہ حکومت نے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے، دن بدن پیٹرول، ڈیزل، گھی چاول ایسے تمام تر اشیاء جو روز مرہ زندگی میں استعمال ہوتے رہتے ہیں ان کی قیمتوں میں اضافے کیے جا رہے ہیں غریب عوام کی حالت دن بدن بگڑتی چلی جارہی ہے۔

محکوم بلوچستان کے رہنے والے مقامی لوگوں کی حالت زار اس سے بھی بدتر ہے بلوچستان جو ایک زمانے میں ایک خودمختار و آزاد ریاست کی حیثیت سے جانا جاتا تھا مگر آج بیرونی سامراجی طاقتوں کا جنگی اکھاڑہ بنایا ہوا ہے۔ چین جیسے سامراجی طاقت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو پورا کرنے کے لیے بلوچستان جیسے تیسری دنیا کے محکوم سرزمین پر عوامی استحصال لوٹ کھسوٹ کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے، بلوچستان کے علاقے گوادر کے مقامی ماہی گیروں کو سمندر سے دور بھگا کر ان روز گار(ماہی گیری) اور سمندر کے گرد و نواح پر اپنا قبضہ جما یا ہوا ہے، پچھلے دنوں گوادر کے شہر کو ریاستی اداروں کے کہنے پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے (ایک حصے میں بیرونی سامراج کے آلا کار اور دوسرے حصے میں مقامی آبادی) شہر میں باڑ لگانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا مگر عوامی سطح پر مسلسل احتجاجات جلسے جلوسوں کے کارن یہ کام بند کردیا گیا تھا، آج بھی گوادر کے ساحل سمندر میں چین کے ٹرالرز وغیرہ دیکھنے کو مل رہے ہیں مگر پھر بھی حکومتِ پاکستان اور بلوچستان اس پر کوئی توجہ مبذول نہیں کر پا رہے۔

اس جدید دور میں بھی بلوچستان کے تمام تر اضلاع جدید تعلیم، علاج کی سہولیات وغیرہ سے محروم ہیں آئے روز بلوچستان کے طلباء و طالبات، محنت کش مزدور، کسان وغیرہ اس ظلم و استہزاء کے خلاف سراپا احتجاج ہیں مگر حکومت بجائے بلوچستان کی حالت کو بہتر بنانے کی بلکہ مزید بلوچستان کی حالات کو تباہی و بربادی کی طرف لے جارہے ہیں، ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ سماج کو اس وقت اندرونی طور پر برائیوں کا آماجگاہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

بلوچستان اس وقت اندرونی طور برائیوں کا گڑھ بن چکا ہے، ان تمام تر سماجی مسائل کو بلوچ معاشرے میں پھیلانے کا اصل زمہ دار ایک طرف تو مسلط حاکم ہے اور دوسری طرف اس بدکاری کو کمک و تواناٸی فراہم کرنے والے بلوچ قوم کے اندرونی نمائشی سردار، نواب اور خود ساختہ رہنماء ہیں۔

ویسے تو بلوچستان کے تمام تر اضلاع اس وقت برائیوں کے گھیرے میں ہیں مگر میں یہاں صرف چند مخصوص اضلاع کی بات کرنا چاہونگا جو باقی ماندہ اضلاع کے مقابلے میں کافی تباہی و ذبوں حالی کا شکار ہیں جہاں آج بھی لوگ قدیم زمانے کے تہذیبوں کی طرح مکان کی جگہ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، اور صاف پانی یا غذا کی تلاش میں اپنے گھروں سے کافی دور دور تک سفر طے کرتے رہتے ہیں، اور جدید سائنسی علوم کا تو بالکل نام و نشان تک نہیں ملتا وہاں۔

ہاں اگر ہے تو صرف دینی مدارس جہاں مدرسے کا امام (مُلّا) اپنے طلباء کو شروع سے ہی یہی کہ کر ان کی ذہین سازی کرتا ہے کہ تمیں جہاد میں حصہ لینا ہے تمہارا دشمن یہودی ہیں تمھارا دشمن سائنسی علوم ہیں، ان بلوچ بچوں کو بچپن سے ہی بلوچ سماج و بلوچ قومی تحریک سے بیگانہ کیے جانے کا کام ہوتا ہے۔ اور اس کو ایسا کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔

اب اس طرح کی کیفیت طاری ہے اِن اضلاع میں جہاں دینی مدارس کے علماء اصل دشمن(ریاستی خونخوار ادارے، جاگیردار، لینڈ مافیا، منشیات فروش، رجعت پسند قبائلی شخصیات، خود ساختہ نمائشی سردار) کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس ارتقائی سوچ وفکر کو بھی ختم کرنے کی کوشش میں ہیں جو سماج کو اِن جمودی قوتوں سے آزاد کرانے میں میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور سماج کو ارتقائی مدارج کی طرف گامزن کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

ان اضلاع کو ایک طرف مذہبی گروہوں نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے تو دوسری جانب وہ عناصر زمہ دار ہیں جن کی سر پرستی اس وقت ریاستی ادارے کر رہے ہیں ان میں لینڈ مافیا، منشیات فروش اور دیگر رجعت پسند قبائلی شخصیات (سردار، نواب، میر و معتبر) جو کہ بلکل سماج میں ان تمام تر برائیوں کو پھیلانے براہ راست شریک ہیں۔

انہی معاشرتی برائیوں کی زد میں ہمارے بلوچستان کا ساحلی علاقہ لسبیلہ جو کہ کسی زمانے میں ایک ریاست کی حیثیت رکھتا تھا جس کا زریعہ معاش اِس وقت زیادہ تر زراعت پر منحصر ہے اور تھوڑا بہت ماہی گیری پر بھی گزر بسر ہوتا رہتا یہاں کے لوگوں کو بھی اسی معاشرتی برائی نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

لسبیلہ شہر اور ہیڈ کوارٹر اوتھل میں بچہ بچہ گٹکہ جیسے منشیات کے سہارے جی رہا ہے جو کہ ایک بہت ہی بُری عادت ہے، جس کی وجہ سے ناصرف اس مودی مرض میں مبتلا شخص بلکہ آس پاس کا ماحول بھی کافی متاثر ہوچکا ہے جس کی وجہ سے لسبیلہ شہر کے لوگوں میں منہ کا کینسر، سینے کی بیماری، معدے کی بیماریاں عام ہو چکی ہے جب کہ شہر کا ہر دوسرا شخص انہی بیماریوں میں مبتلاء ہے۔ دوسری طرف پورا لسبیلہ کسی حد تک قومی معاملات اور سماجی تحریکوں سے کٹا ہوا ہے اور مسلسل بیگانگی کی کیفیت میں ہے۔ ضرور امر یہ ہے کہ انہیں قومی تحریک کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں تیز کی جاٸیں اور ان کی بیگانگی کو ختم کیا جاٸے۔

دوسری جانب انہی معاشرتی کرب میں بلوچستان کا ایک اور شہر چاغی بھی مبتلا ہے۔
چاغی بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جس کے پہاڑوں کے دامن میں معدنیات کے ذخائر کا انبار چھپا ہوا ہے، مگر بدقسمتی سے چاغی کے سونے چاندی و دیگر معدنیات کے ذخائر سے چاغی کے مقامی باشندے محروم ہیں۔

یہ سونے اور چاندی کے ذخائر یہاں سے میلوں دور چین جیسے سامراج کی غربت کو ختم کرسکتے ہیں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے لوگوں کا بھوک پیاس مٹا سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں کہ مقامی باشندے، غریب مزدور، کسان ان سونے اور چاندی کے ذخائر سے دو وقت کی روٹی بھی نہیں خرید سکتے۔

اگر حکومت ان معدنیات کے ذخائر کو بیرونی ممالک کے ہاتھوں نا بیچے انہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سہولیات کی فراہمی کے لیے خرچ کرے تو آنے والے وقتوں میں انہی چاغی کے ذخائر سے بلوچستان مالا مال و خوشحال ہوگا مگر نوآبادیاتی نظام میں ایسا ہوتا بھی تو نہیں نا۔ بدقسمتی سے چاغی بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح کافی پسماندگی کا شکار ہے جہاں ریاستی دہشت گرد گروہوں و دیگر دہشتگرد جماعتوں نے اسلحہ کلچر، منشیات، مذہبی شدت پسندی عام کر رکھا ہے۔

چاغی کا علاقہ جوکہ ڈیورنڈ لائن پر واقع ہے جس کے بارڈرز افغانستان سے براہ راست ملتے ہیں، اور اسی ڈیورنڈ لائن(بارڈر) سے ہی افغانستان کی طرف سے اسلحہ، منشیات اور دیگر نشے کے ادویات بلوچستان کے علاقے میں داخل ہوکر یہاں سے پورے ایشیائی ممالک تک سمگلنگ کی جاتی ہے اور اسی منشیات اور اسلحہ کے تجارتی کاروبار سے بلوچستان کا علاقہ چاغی کافی متاثر ہوچکا ہے، اور علاقے میں بد امنی بھی کافی حدتک پہلی ہوئی ہے۔

یقیناً پچھلے بیس، بائیس سالوں سے بلوچستان بھر میں ایک انقلابی شورش ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے، جس کی وجہ سے آج عام بلوچ بزگ، درتہ پُچ بھی سیاسی و سماجی، تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں یہ ایک قابلِ ستائش کی بات ہے، مگر اسی انقلابی تحریک میں بلوچ عورتیں بہت ہی کم مقدار میں ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ بلوچ عورتوں کو دھرتی ماں سے پیار نہیں، عورتیں ماں ہونے کے ناطے انہیں دھرتی ماں سے زیادہ محبت ہوتی ہے، بلکہ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ بلوچ سماج کے اندرونی نمائشی سرداروں اور خود ساختہ قبائلی رہنماؤں کی قبائلی و جاگیرداری نفسیات نے آج بلوچ عورت کو دبوچ لیا ہے، بلوچ عورت کی حرکات و سکنات پر فرسودہ قبائلی تنگ نظری نے کڑی نظر رکھی ہوئی ہے، بھلے آج بلوچ عورتیں اندرونی جبر کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر کا بھی شکار ہیں مگر یہ اندرونی ظلم و جبر زیادہ خطرناک ہوتی ہے، آج اگر بلوچ سماج کی عورت اندرونی سماجی جبر سے آزاد ہو جائیں تو شاید آنے والے وقتوں میں یہی عورت ریاستی اداروں کے مظالم کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر ابھرے گی۔

ان تمام تر برائیوں کو بلوچ سماج میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلا یا جا رہا ہے تاکہ بلوچ قوم انہی جھنجٹوں میں پھنس کر اپنے قومی و بنیادی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ناکام رہیں، اور انہی برائیوں کی زد میں آکر کسک کھسک کر مر جائیں۔

آج جس کرب ناک زندگی بلوچستان کے لوگ جی رہے ہیں شاید ہی دنیا میں ایسی کوئی قوم ناہو، کیونکہ یہاں کی سیاست، معیشت، ساحل و ساحل، اور لوگوں کی سوچ وفکر پر بیرونی طاقتور اداروں نے کلنک لگایا ہوا ہے، بلوچستان اس بگڑتے ہوئے حالات سے دو چار ہے، یہ حالات یہاں کے نام نہاد پارلیمانی قوم پرست جماعتوں کے منہ پر تمانچہ ہیں، جو کہ ہمیشہ سے خود کو قومی میراث کے وارث اور قوم پرست کہ رہے ہیں، دراصل یہ لوگ بلوچ اور بلوچیت کے نام پر دھبہ ہیں۔

کیونکہ یہی ہیں وہ نام نہاد عناصر جو صدیوں سے بلوچ و بلوچستان و قومی حقوق، سائل و ساحل جیسے اصلاحات کو رٹ لگا کر اپنے طبقاتی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے بلوچ قوم کو جھوٹے دلاسے دے رہے ہیں، جن کی اپنی زندگی خوشحال اور مست ہے مگر عام بلوچ کی حالت سے بے خبر ہیں۔

بلوچستان کی ایک نام نہاد پارلیمانی قوم پرست جماعت کے قائد، رہنماء نے یہ تک کہ دیا تھا کہ جب تک حکومت، بلوچستان اور بلوچوں کی حالت زار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش نہیں کریگی تب تک ہم وفاقی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے، مگر وقت و حالات سے فائدہ اٹھا کر آج وہی نام نہاد قائدین جو بلوچ قوم پرستی کے نام پر ایک کلنک ہیں، آج وہی پارٹی وفاقی حکومت کے کا حصہ ہے، اور بلوچوں کی حالت زار اب تک نہیں بدلی، بلکہ دن بدن بگڑتی چلی جارہی ہے، اب اس تباہی و بربادی کا زمہ دار ہم و حکومت کو ٹھہرائیں یا اسی پارلیمانی پارٹی کے قائدین کو؟؟؟
کیونکہ آج حکومت کی بھاگ دوڑ انہی کے ہاتھوں ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ آج ہر وہ دوسرا شخص سردار، نواب، میر یا بالادست طبقات اپنے طبقاتی مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر بلوچ قوم استعمال کررہا ہے۔

بقول ‏عظیم انقلابی رہبر شیرو مری:-
نجات کے نعرے کے اوپر جب جب عام بلوچ کو صدا لگائی گئی ہے تو انہوں نے لبیک کیا ہے۔ راستہ پارلیمان کا ہو، سڑک کا ہو یا پہاڑ کا اس پر کبھی سوال نہیں اٹھایاگیا۔ مگر انہوں نے دھوکہ ہمیشہ قیادت سے کھایا ہے۔
آج یہ نام نہاد قائدین بھی بلوچ قوم کے ساتھ دھوکا دہی کر رہے ہیں، یہ بھی بلوچ قوم کو اپنے طبقاتی مفادات کے خاطر استعمال کر رہے ہیں۔

انہی بے بنیاد مفاد پرستوں کی دروغ، فریب اور دھوکا دہی کی وجہ سے آج بلوچستان بھر میں ایک طرح سے ایک سیاسی خلاء ہمیں نظر آرہا ہے، جس کو پُر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اس سیاسی خلاء کو پُر کرنے کے لیے بلوچستان کے دانشور حلقوں سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات کو اس مسئلے کے متعلق سنجیدگی کا اظہار کرنا چاہیے، بھلے آج بلوچستان بھر کے دور دراز علاقوں میں سے مسلسل تحریکیں ابھر کر سامنے آرہے ہیں، مگر یہ تحریکیں اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی دم تھوڑ دیتے ہیں۔

حال ہی میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر جیسے پسماندہ علاقے سے گوادر کے مقامی ماہی گیر مولانا ہدایت رحمٰن (جو کہ سیاسی حوالے سے جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں) کی قیادت میں ایک تحریک اپنی جوش و خروش سے تیزی کے ساتھ پھلتی پھولتی جارہی ہے، اس تحریک میں اکثریت گوادر کی عام محنت کش ماہی گیر مرد اور عورتوں کی ہی ہے، یہ تحریک خاص طور پر عوامی امنگوں کے مطابق نکل کر سامنے آئی ہے، اسی تحریک کی توست سے آج پورے مکران میں مزاحمت کی ایک نئی لہر ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے، یہ تحریک ماسی زینب کی ہے یہ تحریک گوادر اور پورے بلوچستان کی ہزاروں، لاکھوں دبے پسے ہوئے طبقات کی تحریک ہے، یہ تحریک محنت کشوں کی ہی ہے۔

مگر ہم دیکھ رہے ہیں آئے روز یہ تحریک اپنی کروٹیں بدلتی جارہی ہے، مسلسل ہمیں دیکھائی دے رہا ہے کہ مولانا ہدایت رحمٰن کی قیادت میں یہ تحریک ہزاروں محنت کشوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہا ہے، یہ تحریک جماعت اسلامی جیسی سفاک و بلوچ دشمن جماعت کی جانب روانہ ہو رہا ہے، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ مولانا ہدایت رحمان اپنے ایک انٹرویو میں جماعت اسلامی کے ذیلی طلباء تنظیم کی بلوچ سٹوڈنٹس پر ظلم و تشدد کی حمایت کرتے ہوئے الٹا بلوچ طلباء تنظیموں کو شراب نوشی کا اڈہ، جھوے کا اڈہ جیسے القابات سے نوازتا ہے، ایک اور جگہ مولانا یہ بھی کہتے ہیں کہ جامعہ بلوچستان میں طلباء و طالبات کا ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا یہ بلوچ، پتشون، سندھی وغیرہ کلچر نہیں بلکہ یہ یوروپین کلچر ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کے واقعے کے زمہدار ایڈمنسٹریشن کے بجائے طلباء تنظیموں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

ایک اور جگہ مولانا بَھری محفل میں اختر مینگل اور بی این پی-مینگل پر اپنے سیاسی غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے زاتی بنیادوں پر بھی اختر مینگل پر چڑھاٸی کرنے کی ایک ناکام کوشش بھی کرتے ہیں اور حال ہی میں حق دو تحریک کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت رحمٰن یہ تک کہ دیتے ہیں کہ”میں نظریاتی و فکری طور پر جماعت اسلامی کو ہوں لیکن جدو جہد حق دو تحریک کیلئے کر رہا ہوں”، اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ مولانا حق دو تحریک کو کس ڈگر لے جانے کی کوشش کررہا، مولانا کی مقرو پن اور منافقانہ کردار روز روشن ہوتے جارہے ہیں، مولانا کی ان تمام تر بیانات کے بعد سوشل میڈیا پر عوامی حلقوں کی جانب سے مسلسل غم و غصّے کا اظہار دیکھائی دے رہا ہے اور مولانا کے ان بیانات کی شدید الفاظوں میں مذمت بھی کررہے ہیں۔

اس تحریک سے عام محنت کش عوام کی امیدیں وابستہ ہیں اگر یہ تحریک عوامی امنگوں کے خلاف جائے تو اس کی زمہ دار وقت کے نام نہاد قوم پرست پارلیمانی پارٹیوں کے آقا ہونگے۔ بہرحال بلوچستان میں یہ ایک تسلسل بن چکی ہے، مخلص اور توانا ماس فرنٹ کی غیر موجودگی میں ایسا ہونا ہی ہے۔ مگر پر بھی دن ابھی تک تھما نہیں، رات ابھی تک دور ہے، اس تحریک کی قیادت کو عام عوام کے ہاتھوں منتقل کر نے کے لئے مسلسل کوششیں کریں تاکہ یہ تحریکیں مُرجھا جانے سے پہلے اپنے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر سکے۔

البتہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انہی تحریکوں کی بدولت ہم بلوچستان کو تمام تر بیرونی اور اندرونی قزاقوں سے پاک کرتے، مگر آج عوامی سطح پر لیڑرشپ کی عدم موجودگی اور ملک بھر میں مظبوط و متحرک سیاسی قیادت کی عدم استحکام کی وجہ سے یہ تحریکیں مُرجھا رہے ہیں، اور اگر شاید ہی کوئی ایک تحریک عوامی سطح پر کامیاب بھی ہوجائے، اور ایک مظبوط و توانا شکل اختیار بھی کر لے، تو وہ ان بے رحم و وقت کے خونخوار بھیڑیوں کے ہاتھوں سے نہیں بچ سکے گا جنہوں نے صدیوں سے بلوچستان کو ایک جنگی اکھاڑہ بنایا ہوا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ “کیا کیا جائے”؟
میں سمجھتا ہوں سب سے پہلے ہمیں اپنے اداروں(تنظیموں) کو مضبوط و منظم کرنے ہوں گے، ہمیں ایسے کیڈرز تیار کرنے چاہیے جو سماج کے حقیقی مسائل پر غور و فکر کرنے کی انتھک کوششیں کریں۔
اور ان تمام تر قومی و سماجی مسائل، عورت کے سوال، طبقاتی سوال اور بلوچ قومی سوال کو سائنسی انداز میں حل کرنے کی کوششیں کریں، اور ہمیں ایسے کیڈرز تراش کر تیار کرنے کیلئے چاہیے کہ ہم آج سے اپنے اداروں میں انہیں ایسے لیٹریچرز فراہم کرنے ہونگے جن میں حقیقی طور پر سماج کی اصل رنگت اصل روپ ظاہر ہو۔

تب جاکر ہمارے اداروں سے فارغ التحصیل کیڈرز اس بگڑتی ہوئی سیاسی بحران پر قابو پاسکیں گے اور سماج کے لیے ایک منظم ،توانا اور مضبوط پروگرام تشکیل دینے میں اپنا اہم قردار ادا کرسکیں۔

اور بلوچ نوجوان طبقہ بلخصوص طالب علم طبقہ جو کہ سیاسی, سماجی و تنظیمی سرگرمیوں سے منسلک ہیں ان کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے تنظیمی سیاسی و شعوری دائرہ کار کو وسیع پیمانے پر پھیلانا شروع کر دیں، تاکہ بلوچستان کے اِن پسماندہ علاقوں کے نوجوان سیاسی و شعوری نظریات سے آشنا ہوکر اپنے اپنے اضلاع کو ان تمام تر سماجی برائیوں سے آزاد کر کے حقیقی معنوں میں بلوچ قومی جہد کا حصہ بنائیں، اور مزید بلوچ قومی جہد کو مضبوط و مستحکم بنانے کی کوشش کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.