قیامت تک

تحریر: عمران بلوچ

امی امی کچھ نظر نہیں آ رہا ہے ہم کس دیشا میں جا رہے ہیں کیا یہ سفر ختم ہوگا بھی کہ نہیں میرے پاٶں ساتھ نہیں دے رہے۔۔۔۔ زیمل نے جھک کر اپنے گھٹنے پکڑ لیئے تھکن سے اس کی سانس بھی حصوں میں تقسیم تھی اس کی امی جس کے چُنہڑی کی ایک پلو زمیں پر دوسرا پلو دانتوں میں دبوچ کر وہ اگے اگے چل رہی تھی۔۔۔۔ وہ مڑی اس نے زیمل کو کندھے سے پکڑ کر کہا میری بچی جان بچانی ہے تو ہمیں آج رات سفر کرنا ہوگا بس تھوڑا سا صبر کرو کچھ دیر میں چاند بھی نکل جائے گی روشنی کے آتے ہی ہم کہیں چھپ جائیں گے تا کہ ہمیں کوئی دیکھ نہ لے دشمن ہمارے پیچھے ہی ہوگا زیمل نے ایک آہ بھری۔ امی کیا یہ دشمن ہمیں مار دے گی کیا چاند کی روشنی ہمارے روح دماغ پر چھائی ہوئی اندھیرے کو روشن کر پائے گی۔ زیمل فضول بات مت کرو ہمیں کسی محفوظ جگہ پہنچنا ہوگا۔

پچھلے دو سال سے آپسی دشمنی میں زیمل کے خاندان سے بائیس نوجوان لقمہ اجل ہوچکے تھے زیمل کا بچپن اسلحوں کے درمیاں ہی بیتا تھا اب وہ پندرہ کی عمر میں پہنچ چکی تھے اس کی ماں کو پریشانی تھی کہ اس جنگ زدہ ماحول میں اسے کوئی بہتر رشتہ اپنی بچی کے لیے مل پائے گا کہ نہیں۔

زیمل اسی سوچ میں گم تھی کہ آخری منزل کیسا ہوگا کیا وہاں امن ہوگا کیا وہاں وہ گڑیوں کے ساتھ کھیل پائے گی کہ نہیں۔ زیمل کی ماں کو یہی بات ستا رہی تھی کہ کہیں وہ اور زیمل کسی دشمن کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ چاند کی روشنی پہاڑی کے اوپر سے ایسے چمکنے لگی جیسے کوئی شہزادی اپنی نئی جوڑے کو زیب تن کیئے ہوئے اپنے محل سے نکل رہی ہو۔ کچھ ہی دیر میں زیمل کی امی اور بھی لوگ جو ان کے ساتھ اس قبائلی جنگ کے نظر ہوئے تھے ایک غار میں جا کر چھپ گئے۔

کئی دن کا سفر طے کر کے کسی اور جگہ پہنچ گئے وہاں زیمل کے ابو کے کچھ جاننے والے جو ان کے دور کے رشتہ دار بھی تھے کئی راتوں کا سفر شاید اتنا تھکا دینا والا نہیں تھا جتنا وہ خوف سے تھک چکے تھے اکثر رات ایک کو چھوٹی سی آہٹ بھی ان کی نیندیں اڑا دیتی تھی۔
کچھ راتوں بعد زیمل کے والد ایک عجیب حلیہ (لمبی داڑھی بڑے بال جن پر منوں مٹی تھی) کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔

وقت گزرتا گیا زیمل کی بیاہ دینے کا وقت آگیا تھا سترہ سال کی لڑکی گھر بیٹھی ہے ماں باپ کو رشتہ کی تلاش تھی مگر وہ خود کسی سے کہہ نہیں پاتے تھے کہ رشتہ کر لیں نہ ہی زیمل کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ خود کسی کو چن لے اسے اس بات کی اجازت نہ سماج دیتی ہے نہ ہی اس کا کوئی ایسا ماحول ہے۔ سورج سر پر تھا کہ زیمل کی امی گھر کے کاموں میں لگی ہوئیں تھیں
سلام بہن۔۔۔۔۔۔!!
ارے بھائی آپ آجائیں
زیمل کی امی نے جلدی سے ہی ایک پرانی پھٹی ہوئی چٹائی جو اس نے خد اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی بچھائی
آجائیں بھائی یہاں بیٹھیں۔۔۔۔۔
بہن داٶد کہاں مجھے ان سے کام ہے ضروری
زیمل کی امی نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا گلاس جس کے بیچ میں ایک دراڑ تھی پانی ڈالی اور مہمان کے سامنے پیش کرتے ہوئے بولی۔
وہ ذرا مویشیوں کے لیے گھاس پھوس کا بندوبست کرنے چلے گئے ہیں آتے ہی ہونگے
میں جب تک آپکے لیے چائے تیار کرتی ہوں جب تک زیمل کے ابو بھی پہنچ جائیں گے
جی ضرور میں بھی تھکا ہوا ہوں اور داٶد بھی کام کی وجہ سے تھک گئے ہونگے
انہی باتوں میں مٹی سے بنے کمرے کے پیچھے سےزیمل نے آواز دی امی ابا آ رہے ہیں۔
بٹے خاں نے زیمل کی آواز سنی تو ایک شکاری کی طرح کان کھڑے کردیئے اپنی چھوٹی چبھنے والی آنکھیں زیمل کی طرف تیر کمان کی طرح تان دیں اور بے ساختہ منہ سے آواز نکلی “واہ”
زیمل کی امی چائے بنانے گئی
کچھ ہی دیر میں زیمل کے ابو بھی پہنچ گئے
اس نے اپنے کندھوں سےبوجھ کو ہٹاتے ہوئے بولا
آجاٶ بٹےخاں تم کب پہنچے۔۔۔۔۔؟
بس کچھ دیر پہلے داود جان
میں ذرا ہاتھ منہ دھو لوں آتا ہوں بٹے خان،
بٹے خان کی نظریں زیمل پر جمی ہوئی تھیں وہ اسے گھور رہا تھا اس کی چال چلن بیٹھنے کے انداز یہاں تک کہ جسم کی پیمائش اپنے آنکھوں سے لے رہا تھا۔ زیمل کی امی نے اس کی پیمائشوں میں خلل ڈال دی۔ بھائی بٹے خان آپ کی چائے اس نے پیالی آگے کرتے ہوئے بولی۔

بٹے خان نے چائے کی پیالی اٹھائی لمبی سی چسکی لیتے ہوئے بولی بہن زیمل گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتی ہے کہ نہیں جواں ہوتی جارہی ہے کوئی کام کرتی بھی ہے کہ نہیں۔۔۔!!
نہیں بھائی بس یہاں پر ایک اسکول ہے صبح جاتی ہے اور دوپہر کو مسجد میں قران کے آخری پارے میں ہے۔ کام نہیں کرتی سمجھ نہیں آتا جواں ہوتی جارہی ہے اور ایک گھر کا ڈھنگ کا کام نہیں سنبھالتی ایک اہ بھرتے ہوئے زیمل کی اماں نے ایک ہی دم میں سب کچھ کہہ دیا۔

بیاہ جائیگی تو ٹھیک ہوجائے گی ویسے اپ دونوں میاں بیوی غلط ہیں اسکول میں پڑھ کر کونسی وہ صاحبہ بنے گی قران ختم کر رہی ہے میرا مان لیں تو بس بیاہ دیں اسے۔

بھائی کوئی رشتہ بھی تو ڈھنگ کا ملے نا وہ اپنی انگلیوں کی مدد سے زمیں کریدتے ہوئے بولی
زیمل کے ابا بھی چٹائی کے پھٹے ہوئے حصے پر اپنی بالشت رکھ کر اس کے اوپر بیٹھ گئے
چائے کی دوسری پیالی بٹے خاں کے پیالی میں ڈال کر زیمل کی امی وہاں سے اٹھ گئیں
ارے بہن بیٹھو مجھے ضروری بات کرنی ہے آپ لوگوں سے۔ بھائی داود مجھے رشتے کی تلاش ہے ہم تو بس جان پہچان کے ہیں ایک دوسرے کے اسی جان پہچان کو اگر رشتہ داری میں بدل دیں تو کیسا رہے گا میں عمر میں آپ لوگوں سے چھوٹا ہوں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں کسی اور کو بھیجتا پر مجھ سے بہتر وہ شاید بات نہیں کر پاتے آپ جو کہیں گے میں آپ لوگوں کو نہ نہیں کہونگا میری بیوی کی ناگہانی موت کے بعد میں بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں مجھے بس ایک ہم سفر کی ضرورت ہے اس کے لیئے کوئی بھی قمیت چکانے کے لیئے میں حاضر ہوں۔ بٹے خاں نے اپنے چائے کی پیالی کو ایک ہی چسکی میں ختم کردیا۔

داٶد اور اس کی بیوی کو جیسے صدمہ سا لگا ہو
داٶد نے بٹے خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہم مشورہ کر کے آپ کو جواب دینگے بٹے خاں
بٹے خاں اپنے الاخ (سواری) پر چڑہتے ہوئے ایک نظر زیمل پر ڈالی اور خدا حافظ کہہ کر آگے چل دیا۔

زیمل کے ابا یہ بندہ پاگل ہے کیا۔۔۔۔۔ ایسے کیسے میں تو زرا بھی مطمئن نہیں ہوں باٶلا ہوگیا ہے
ویسے زیمل کی اماں کوئی رشتہ بھی تو نہیں آ رہا ہے اب جو آیا ہے تو تم مطمئن نہیں ہو بیٹی خوش رہے گی ہماری اس کے پاس ہمارے بیٹی کو سکون دینے کے لیے سب کچھ ہے۔ کیا بات ہے اماں ابو کس کے رشتے کی بات کر رہے ہیں۔

زیمل کی امی کے جواب دینے سے پہلے ہی اس کے ابا نے جواب دیا تمھاری۔۔۔۔ میری بچی اب تمھاری عمر ہوگئی ہے ہاتھ پیلے کرنے کو زیمل کو کچھ سمجھ نہیں آیا نہ ہی وہ اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کر سکتی تھی۔ کچھ ہی دن گزرے بٹے خان کو رشتہ مل چکا تھا شادی کی تیاریاں مکمل ہوگئیں تھیں۔ یہ رات بھی اسی رات کی طرح بھیانک تھی جب زیمل اور اس کا خاندان رات کو ہجرت کر گئیں تھیں۔ زیمل سر جھکائے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اسے اپنے ہاتھ اور پیٹھ پر ایک جاندار کھردرا ہاتھ محسوس ہوا۔ زیمل نے خد کو سمیٹ لیا یہ نہ اس کے بابا کا ہاتھ تھا نہ ہی اس کی امی کی۔

ڈرو مت میں اور تم ایک ہوگئے ہیں قیامت تک۔۔۔۔۔۔

زیمل سوچ میں پڑ گئی کیا یہ سمندر جیسی تاریکی جہاں ہر طرف گھپت اندھیرا تھا
زیمل کو محسوس ہوا کہ کمرے میں صرف اور صرف اس کی تیز سانسیں چل رہی تھیں
ہلکے سے ہوا کے جھونکے نے چمنی کی جلتی دھاگے کو بھجا دیا صبح کو بٹے خاں باہر نکلا
تو زیمل کی امی جو انتظار میں تھیں جلدی سے کمرے میں چلی گئیں زیمل نڈھال ایک کونے ادھ بے حوشی کی حالت میں تھیں اسے صرف یہی محسوس ہوا کہ اس کی امی نے اسے اپنے سینے سے لگا دیا کچھ ہی دیر میں قریبی شہر کے ہسپتال پہنچ گئے۔ لیڈی ڈاکٹر دن کے گیارہ بجے تک ڈپٹی پر نہیں پہنچی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر پہنچ گئیں۔
علاج شروع ہوا زیمل کے ابا اور امی کمرے کے باہر بلک رہے تھے اور زیمل اب تک تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی زندگی ٫روشنی٫ امیدوں کی طرف اسے راستہ نہیں مل پارہا تھا۔
شاید آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا ڈاکٹر باہر آگئیں اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا
زیمل کی امی ڈاکٹر کے پاس پہنچیں کہ اسے زیمل کے بارے میں کوئی تسلی بخش جواب ملے
ڈاکٹر نے زیمل کے شوہر بٹے خان کے بارے میں پوچھا
کہاں ہے اس کا شوہر۔۔۔۔؟
آواز میں درد٫ غصّہ٫ جذبات گھل کر مل چکے تھے جیسے ابھی وہ بٹے خاں کو آگ لگا دے گی۔
بٹے خاں نمودار ہوا۔ ہونٹوں پر مسواک ہاتھوں اور پیروں پر مہندی کی لیپ چھوٹی چھوٹی چبنے والی آنکھوں میں سرمے کی موٹی لکیریں لگی ہوئیں تھیں۔ جی ڈاکٹر صاحبہ میں ہوں اس کا شوہر
ڈاکٹر نے طنزیہ انداز میں کہا
تم میں انسانیت کی ایک نشانی بھی موجود ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔! ڈاکٹر مڑ کر زیمل کی امی کو مخاطب کرتے ہوئے بولیں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ آپ کی بیٹی ایک مہینے تک بیٹھنے کے قابل نہیں رہی۔

وہ بستر پر ہی لیٹی رہے گی اور اس بات کا بھی آپ کو ادراک ہو کہ اب آپ کی بیٹی بچے جنم دینے کے قابل نہیں ڈاکٹر کی آواز میں ایک جنبش سی پیدا ہوئی اپنی آنسو پونچھتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.