خوشحالی کے بغیر ترقی
تحریر: رفیع اللہ کاکڑ
انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل
گوادر کو حق دو تحریک نے اپنا مہینہ بھر طویل احتجاجی دھرنا حکومت کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں ختم کر دیا ہے، جہاں حکومت نے تحریری طورپر غیر قانونی ٹرالنگ، غیر ضروری عسکری چوکیوں کے اختتام، تجارتی سرحد کی کی بحالی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کرواٸی ہے۔
امید ہے کہ حکومت معاہدے پر پوری طرح سے عملدر آمد کرے گا لیکن اگر تاریخ کوٸی شہہ دیتی ہے تو اس حوالے سے اسلام آباد کی بلوچستان کے ساتھ ہونے والے معاہدوں سے پیچھے ہٹنے اور وعدہ خلافیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس بد سلوکی کے بھی الگ وجوہات ہیں، بنیادی عناصر میں وفاق کی اکثریتی توازن میں صوبے کی غیر اہم سیاسی حیثیت، اختیاراتی ساخت اور حکومتی اتحاد و شراکت داری میں منظم طریقے سے محرومی اور بلوچستان میں اسلام آباد کی استحصالی بنیادوں پر قاٸم معاشی ترقی کے طریقہ کار اور حکمت عملیاں شامل ہیں۔
گوادر کا بحران یقیناً اسلام آباد کے استحصالی ترقی کے ڈھانچے پر مبنی طریقہ کار کا ایک نتیجہ ہے۔ سالوں سے نہ صرف سماجی و سیاسی حقوق سے مقامی لوگوں کو محروم رکھا گیا بلکہ قدرتی وساٸل کی لوٹ مار، زمین پر قبضہ کرنے، اور غیر رسمی تجارت سے لے کر آبی وساٸل تک کا استحصال کیا گیا۔ آٸیں اس کا جاٸزہ لیں جس کی بدولت یہاں ہم اس وقت کھڑے ہیں۔
پہلے پہل تو بلوچستان میں جاری مقامی تنازعے کا پرامن طریقے سے حل نکالے بغیر سی پیک کے منصوبوں آغاز کرنا ایک احمقانہ عمل تھا جس کے منفی نتاٸج لازماً آنے تھے۔ جنگوں سے متاثرہ علاقوں میں میگا پروجیکٹس پر لکھی گٸی تحاریر یہی عندیہ دیتے ہیں کہ کامیاب معاشی ترقی کی کاوشوں سے پہلے سیاسی مفاہمت کا عمل کیا جاتا ہے، تنازعات کے دوران معاشی ترقی ازخود اپنے اندر بہت سے خطرات رکھتا ہے۔
الف: ایسی حکمت عملی باقاعدہ طور پر اس نہج پر پہنچاتا ہے کہ جہاں فوج نہ صرف سیکیورٹی کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ اختیار چاہتا ہے بلکہ معاشی ترقی میں بھی زیادہ سے زیادہ دخل اندازی کی جستجو رکھتا ہے۔ یہ عمل ایک طرف خطے میں عسکریت پسندی کو بڑھاتا ہے، بلوچستان جیسے علاقوں میں جہاں پہلے سے ہی تاریخی طور پر چھاٶنیوں اور چیک پوسٹوں کے متعلق ایک شدید قسم کی ناراضگی اور ناپسندیدگی موجود ہو وہاں بیگانگی کو مزید بڑھاوا دینے اور گہرا کرنے کا مٶجب بنتا ہے، دوسری جانب عسکریتی مداخلت کے بَل بوتے پر ہونے والی معاشی ترقی قانونی حیثیت اور مقامی ملکیت جیسے معاملات پیدا کرتا ہے۔
ب: مزید براٰں شدید عسکری ماحول میں معاشی ترقی، بنیاد پرست سیاست کو فروغ دیتا ہے اور معتدل سیاسی آوازوں کو دبا دیتی ہے، یہی رجحان آخری نتیجے میں بلوچ علیحدگی پسند قوتوں کو فاٸدہ پہنچاتی ہے۔
ج: ایسی حکمت عملی آخر کار سرمایہ کاروں اور بیرونی حکومتوں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہے جن کےلیے دراصل یہ سارے حفاظتی اقدامات ہو رہے ہوتے ہیں۔
دوٸم یہ کہ سی پیک کے گیم چینجر ہونے کا دعویٰ عام لوگوں میں ایک غلط اور جھوٹ ہونے کا تاثر پیدا کر چکا ہے جو اسے ہر مرض کی دوا اور مقامی ترقی کا نعم البدل سمجھ رہے تھے۔ حتٰی کہ ریاست، میڈیا اور مین اسٹریم دانشور نماٸندے آج بھی اصل حقیقت کو بتانے اور سامنے لانے کی بجاٸٕے سی پیک کی جھوٹی مثبت تاثر دینے کی کوشش میں مسلسل لگے ہوتے ہیں۔
سوٸم یہ کہ پچھلے دو دہاٸی کے عرصے میں گوادر میں کی جانے والی تمام تر سرمایہ کاری کے دوران کاوشیں یہی رہیں کہ گوادر پورٹ کو وسعت دی جاٸے اور قومی شاہراہوں سے اس کی جڑت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ایسے بڑے تعمیراتی منصوبوں میں ماحولیاتی بگاڑ، لوگوں کی بے دخلی اور ان کی حالت زندگی کے متاثر ہونے کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گوادر پورٹ کی تعمیر و ترقی کے منصوبے کےلیے مقامی لوگوں کو شامل کرکے ان کی سماجی ترقی و بڑھوتری اس بڑے منصوبے کا باقاعدہ حصہ ہوتے۔ مزید یہ کہ مقامی مالی وساٸل پر توجہ دے کر انہیں بڑھایا جاتا اور مقامی لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا بندوبست ھنگامی بنیادوں پر کیا جاتا۔
در حقیقت ابتدا ہی سے گوادر کے ماہیگروں کی جانب مطلوبہ توجہ نہیں دی گٸی کیونکہ جس بنیاد پر سی پیک کے منصوبوں کو حتمی شکل دے دی گٸی وہ مرکزی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر شفاف، مبہم اور غیر شراکتی تھے۔ بجاٸے اس کے کہ ایک پر امن حکمت عملی طے کی جاتی جہاں چھوٹے چھوٹے تضادات اور معاملات کو حل کر کے دباٶ کو گھٹایا جاتا۔ ایسے ہی گوادر کے لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو کاروباری منصوبوں میں غلط ملط کر کے ابتداٸی منصوبوں کے طورپر پیش کیا گیا۔ مثال کے طورپر 15 سے 18 ارب ڈالر ابتداٸی طور پر تواناٸی پر خرچ کیا گیا مگر گوادر کو بجلی کی فراہمی پر ایک ڈھیلا تک خرچ نہیں کیا گیا۔ نتیجے میں تواناٸی کے شعبے میں اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود مکران ریجن بشمول گوادر آج تک قومی گریڈ سے جُڑ نہیں پاٸے۔ وفاقی پی ایس ڈی پی میں مکران کو قومی گریڈ سے جوڑنے کا ایک منصوبہ فقط تین سال قبل منظور ہوا مگر اس پر بھی عملدر آمد انتہاٸی سست روی کا شکار ہے۔
جہاں تک پینے کے پانی کی فراہمی کا سوال ہے اس سے کوٸی انکار نہیں کہ وفاقی اور صوباٸی حکومت کے وساٸل اس مقصد کےلیے مقرر کیے گٸے۔ یہ بھی سچ ہے شادی کور ڈیم اور سوادھ ڈیم کو پاٸپ لاٸن کے ذریعے گوادر سے جوڑنے کا کام پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے مگر بجلی کے طویل بحران اور پانی کے لیے بچھی ہوٸی قدیم و ناکارہ ترین لاٸنوں کے سبب میسر پانی بھی لوگوں کے گھروں تک انہیں نہیں پہنچاہا جا سکا۔
ایسے ہی حکومتی اداروں کی نا اہلی اور بے تکی نگرانی کے سبب سمندری پانی کو پینے کے قابل پانی میں بدلنے کے سارے منصوبے ناکامی کے ساتھ اختتام پذیر ہوٸے۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ فوجی چیک پوسٹیں اور گوادر پورٹ وسعت پا کر بڑھ چکے ہیں مگر سماجی ترقی اور لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی انتہاٸی دگر گوں ہیں۔
اگرچہ گوادر میں اٹھی طوفان اب وقتی طورپر تھم چکا ہے مگر یہ کبھی اور کسی بھی وقت دوبارہ اٹھ سکتا ہے۔ مسٸلے کے حتمی حل کےلیے اسلام آباد کو شراکتی حکمت عملی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے جہاں بنیادی حقوق، لوگوں کی عزت و وقار، مقامی لوگوں کے ترقی کی ضروریات، سمندری ذخاٸر و ماحولیات کا تحفظ اور لوگوں کا ذریعہ معاش بنیادی توجہ کا مرکز ہوں۔
ایسی ہی کوٸی حکمت عملی جہاں مزاحمت کاروں کے ساتھ سیاسی مفاہمت، غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ، گوادر پورٹ کی آمدنی میں حکومت بلوچستان کی حصہ داری، فری زونز میں مکران کے لوگوں کےلیے ملازمت کا کوٹہ، گوادر کے تمام لوگوں کو سولر یونٹس کی فراہمی، پانی کی فراہمی کے نیٹورک کی درستگی اور ایک پبلک سیکٹر کمپنی کا قیام جو پانی کی فراہمی کو یقینی بنا سکے، عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ گوادر بندر گاہ کے راستے زیادہ سے زیادہ ٹریفک کو راغب کرنے کےلیے گوادر ضلع میں ایندھن پر خصوصی سبسڈی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ اور آخر میں باڑ لگانے کے منفی اثرات کو زاٸل کرنے کےلیے افغانستان اور ایران سے منسلک تجارتی بارڈر پر بلوچستان کے تمام اضلاع میں تجارتی رسد اور سہولیات کے ساتھ ایک تجارتی گیٹ وے کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔