بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے اسٹڈی سرکل بعنوانِ”Evolution of Society” پر منعقد کیا گیا۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے 29 مارچ بروز منگل کو “ارتقاء معاشرہ” کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔ جس پر بی ایس او اوتھل زون کے جنرل سیکریٹری سجاد بلوچ نے لیڈ آف دی۔

سرکل کا آغاز بی ایس او کے روایتی انقلابی انداز میں کیا گیا جس میں ساتھیوں نے تعارفی نشست اور بعد ازاں دنیا بھر کے انقلابی شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے اور پھر باقاعدہ طور پر سرکل کا آغاز کیا۔

بحث کا کرتے ہوئے سجاد بلوچ نے ملکی و بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ آج اس پوسٹ انڈسٹریل دور میں ایک طرف انسانی زندگی جس تیزی سے ترقی و تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہے جس سے روس، چین، امریکہ جیسے سامراجی قوتیں تیزی سے اپنے سامراجی عزاٸم دنیا میں پھیلا رہے ہیں تو وہی دوسری طرف اس سماجی تبدیلی نے انسانی زندگی کو مختلف طریقوں سے تباہی و ذبوحالی سے دوچار کرکے رکھ دیا ہے۔

روس اور نیٹو اتحادیوں کے درمیان ہولناک جنگوں سے یوکرین میں انسانی جانوں کا ضیاء کافی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے روس اپنے سامراجی حدود کو بڑھانے کی خاطر یوکرین کی سرزمین پر اپنے مضبوط پنجے گاڑ رہا ہے جس کی وجہ سے یوکرین عوام نے روس کی سامراجی مزاحم کو روکنے کیلئے مزاحمت کا جھنڈا بلند کیا ہے۔ دوسری طرف نیٹو کی وسعت پسندی اس جارحیت کی بنیاد ہے اور امریکی سامراج کا اسلحہ کاروبا اس جنگ کی بدولت دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔

مزید سرکل کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسان نے اپنے ابتدائی معاشرے کی بنیاد اس طرزِ عمل پر قائم کیا تھا کہ اس ابتدائی و اشتراکی سماج میں انسانوں کے درمیان نا کوئی طبقاتی اونچ نیچ پائی جاتی تھی اور ناہی کوئی طبقاتی بنیادوں پر قائم جنگیں لڑی جاتی تھی۔
انسانی زندگی کی گزر بسر صرف شکار پر مبنی تھی اور اسی شکار پر مبنی انسانی سماج نے مختلف ارتقائی مدارج کے تحت آگے کی جانب بڑھنا شروع کر دیا اور بالآخر ایک ایسا سماج تعمیر ہوگیا جس میں ناصرف انسان مختلف طبقات میں تقسیم ہو کر رہ گیا بلکہ اس طبقاتی نظام نے مخلتف جنگی وحشت بھی پھیلانا شروع کر دیا۔

جس کی بدولت مختلف قومی ریاستوں کا ظہور ہوتا گیا اور وہ قومی ریاستیں اپنے پیداواری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی خاطر مختلف چھوٹے ریاستوں پر اپنا تسلط قائم کر کے ان کو اپنے نوآبادیات میں شامل کرکے مزید اپنے منڈی کو بڑھانے کی کوشش جاری رکھی جیسے کے برطانیہ اپنے پیداواری عمل کو بڑھانے کی خاطر اٹھارویں صدی میں پہلے پہل ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھتی ہے اور آہستہ آہستہ اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اور اسی وقت 1839 میں بلوچستان پر بھی اپنا قبضہ جما کر ناصرف بلوچوں کی ریاستی اداروں کو ختم کرکے اپنے کھٹ پتلی سرداروں اور نوابوں کو بلوچوں پر مسلط کردیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بلوچ سرزمین کی جغرافیائی وحدتوں کو بھی بگاڑ کر بلوچستان کا ایک حصہ ایران کے ساتھ ملحق کردیتا ہے اور دوسرا حصہ افغانستان کے حوالے جب کہ تیسرا حصہ اپنے مقبوضات میں شامل کردیتا ہے اور اسی قبضہ گیریت کے خلاف بلوچ رہنماء نورا مینگل، میر یوسف عزیز خان مگسی اور دیگر بلوچوں نے مختلف جنگیں اور مختلف مزاحمتی تحریکیں بھی شروع کر دیئے تھے جس کی وجہ سے بلآخر 11 اگست 1947 کو بلوچ سماج برطانوی راج کے آزاد ہو کر ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے دنیا میں جانا جاتا ہے۔

سرکل کو اختتام کی طرف لیجاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم کیوں نا ایک ایسا سماج تعمیر کریں جو تمام تر جنگی وحشت سے پاک ایک آزاد معاشرہ ہو جہاں کوئی کسی کا استحصال ناکرے جہاں سب برابر ہوں اور مساوی بنیادوں پر ارتقائی عمل کو آگے کی جانب بڑھائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.