بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے “بلوچ قومی سیاست” کے موضوع پر اسٹڈی سرکل کا انعقاد۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری بی ایس او اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے 6 اپریل بروز بدھ کو بلوچ قومی سیاست پر ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت بی ایس او اوتھل زون کے صدر کامریڈ بامسار بلوچ نے کی اور لیڈ آف بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کے جنرل سیکرٹری سجاد بلوچ نے دی۔

سرکل کا آغاز بی ایس او کے انقلابی روایتی انداز سے کیا گیا جس ساتھیوں نے دنیا بھر کے انقلابی شہداء کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی اختیار کر کے اور پھر باقاعدہ طور پر سرکل کا آغاز کیا ۔

بحث کرتے ہوئے سجاد بلوچ نے ملکی و بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کے اس جدید تکنیکی دور میں دنیا بھر میں ہمیں مظلوم و محکوم طبقات کی طرف سے مسلسل ایک انقلابی سامراج دشمن اور سامراجی قوتوں کے خلاف ہر محاذ پر جنگیں نظر آتی ہیں مگر اس وقت دنیا بھر کے مظلوم و محکوم طبقات کو یکجاء کرنے کیلئے اور ان یے تمام تر توانائیوں کو ایک کامیاب سمت مہیا کرنے کے لیے ہمیں وہ طاقت وہ پلیٹ فارم نظر نہیں آرہا جس کے سائے تلے دنیا بھر کے محنت کش و محکوم اقوام اپنی آزادی و خودمختاری کے لیے ان سامراجی قوتوں کو شکست دے کر نجات حاصل کرسکیں۔

بلکل اسی طرح اگر بلوچ سماج کا ابتدائی طور پر جائزہ لیا جائے تو بلوچ مزاحمتی اہلکار بھی 1920 کے وسط سے پہلے انگریز سامراج کے خلاف مسلسل چھاپہ مار جنگیں لڑتے تھے ان جنگوں کی بنیاد قبائلی و علاقائی طرز پر قائم تھی جس کی وجہ سے مسلسل بلوچ مزاحمتی اہلکار وقفوں وقفوں سے دشمن کے خلاف مزاحمت کرتے تھے اور غیر ملکی سامراج کو اپنے علاقوں سے بھگانے کی کوششیں کرتے تھے۔

آہستہ آہستہ بلوچ دانشوروں نے اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اُس وقت ایک اِیسی قوت یا پلیٹ فارم کو وقت کی اشد ضرورت محسوس کی کہ جس کے سہارے بلوچ مزاحمتی اہلکار برطانوی راج کے خلاف عوامی سطح پر مزاحمت کرسکیں اور اپنے قومی جہد کو نا صرف علاقائی بلکہ ملکی سطح پر آگے بڑھا سکیں۔

پھر 1920 کے وسط میں میر عبدالعزیز کرد اور ان کے دیگر کئی ساتھی اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے “ینگ بلوچ” نامی سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھتے ہیں اور پھر یہی ینگ بلوچ نامی سیاسی جماعت آگے چل کر جس کا نام تبدیل کرکے “انجمن اتحاد بلوچاں” رکھا جاتھا ہے جس میں 1929 کو میر عبدالعزیز کرد کے ساتھ اس کاروان میں ایک اور سامراج دشمن میر یوسف عزیز مگسی بھی شامل ہوجاتے ہیں۔

جس سے اس سیاسی تحریک کی روح کو اور بیداری مل جاتی ہے اور اس سیاسی پارٹی کے سائے تلے بلوچستان کے تمام تر مظلوم و محکوم لوگ انگریز سامراج کو دھتکارنا شروع کر تے ہیں اور اپنے قومی خودمختاری کے خاطر مسلسل جدو جہد کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ 1937 میں میر عبدالعزیز کرد اپنے دیگر کئی ساتھیوں کے ہمراہ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی بنیاد بھی رکھتے ہیں یہ پارٹی بلوچستان کے تمام تر پرتوں کو جانچ کر نا صرف غیر ملکی انگریز سامراج کے خلاف کے خلاف بلواسطہ مزاحمت کرتی ہے بلکہ ملکی سطح پر سرداری و جاگیرداری نظام کے خلاف بھی بر سر پیکار نظر آتی ہے۔

مزید بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا بھی ایک بہت ہی اہم قردار رہا ہے بلوچ قومی سیاست میں 1967 میں مختلف طلباء تنظیموں کے ایک ساتھ ملنے سے بی ایس او کا قیام عمل میں لایا جاتاہے اور بی ایس او اپنے ابتدائی دور سے آج تک سامراجی عزائم کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہے اور بلوچ سماج کو سائنٹیفک بنیادوں پر پرکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ نا صرف بلوچ طلباء بلکہ بلوچ سماج کے دیگر سماجی حلقوں میں بھی ایک سیاسی سوچ وفکر متعارف کروایا جائے جس کی بدولت نوجوان اپنے قومی جہد کو مضبوط و مستحکم بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔

بی ایس او بلوچ قوم کا وہ علمی و سیاسی درسگاہ ہے کہ جس نے تاریخ میں بلوچ سماج کے تمام تر بوجھ کو اپنے کاندھوں پر اٹھانے کی کوشش کی ہے ریاستی اداروں کی جانب سے نیپ ( نیشنل عوامی پارٹی) پر پابندی لگنے کے بعد بی ایس او وہ واحد ادارہ رہا ہے کہ جس نے بلوچستان میں ماس پولیٹکل پوزیشن کی خلاء کو پُر کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی ہیں اور قومی نجات و خودمختاری کو بھی اپنے کاندھوں پر استوار کیا جس کی بناء پر ناصرف بیرونی قوتوں کی جانب سے بی ایس او کو ہرغمال بنانے کوششیں کی گئی تھیں بلکہ اندرونی سازشوں کی وجہ سے بلوچ سماج کے سرداروں و جاگیرداروں نے بھی اس سیاسی درسگاہ کو مسلسل تباہی و بربادی کی طرف لے جاتے ہوئے اس درسگاہ کا گلہ گھونٹ نے کی کوشش کی ہے۔

جب بلوچستان نیشنل موومنٹ کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے تو اس کے چند سالوں بعد قبائلی شخصیات کی اجارہ داری کی وجہ سے بی این ایم دو دھڑوں میں منقسم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قبائلی شخصیات بی ایس او کو بھی مختلف دھڑوں میں تقسیم کرتے ہیں جس سے بی ایس او کی مضبوط و توانا شکتیوں کو کمزوری کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے اور پھر اسی طرح آگے چل کر بی ایس او واپس انضمام کی طرف جاتاہے جس سے سنگل بی ایس او عمل میں لایا جاتا ہے اور پھر واپس قومی سطح پر قومی سرداروں کی جانب سے بی ایس او کو ایک بار تقسیم کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے بی ایس او اور زیادہ کمزوری و ناتوانی کا شکار ہو کر یہیں سے بی ایس او تباہی و بربادی کی جانب راغب ہوکر اپنی حیثیت کھو بیٹھتا ہے۔

مزید سرکل کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کے اس جدید دور میں بلوچ سماج میں عوامی سطح پر ہمیں ایک سیاسی خلاء نظر آتا ہے جس کی وجہ سے ناصرف عام عوام بلکہ طلباء بھی سیاست جیسے عظیم ہستی سے مایوس ہیں۔

اسی سیاسی خلاء کو پُر کرنے کے لیے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک بار میدان میں اپنے مضبوط و متحرک کیڈرز کے کے ساتھ بلوچ سماج کے تمام تر پرتوں کا جائزہ لے کر ان کو ایک کامیاب سمت مہیا کرنے کی کوشش میں میدان میں قدم رکھتا ہے۔

جو بلکل اپنے ابتدائی شروعاتی دور کی طرح نا صرف قومی سطح پر بیرونی سامراج کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر قوم کو منظم کرنے کی کوشش میں خطے میں ابھر کر سامنے آتی ہے بلکہ بلوچ سماج کے اندرونی نمائشی سرداروں و جاگیرداروں کے خلاف ایک طبقاتی جدوجہد بھی کرتا ہے کہ جنہوں نے بی ایس او جیسے قومی میراث کو اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم کا نشانہ بنا کر اس کی شناخت مٹانے کی کوشش کی تھی اور بی ایس او یہ عہد بھی کرتا ہے اپنے فارغ التحصیل کیڈرز کو بلوچ قوم کیلئے قربان کر کہ بلوچ سماج میں عوامی سطح پر ماس پولیٹکل پوزیشن کی گیپ کو بھی ختم کر کے بلوچ سماج میں ایک متحرک ماس پولیٹکل پوزیشن کی بنیاد رکھتے ہیں جو جاگیرداروں و نوابوں سے پاک و صاف عوامی پارٹی ہو۔

مزید سرکل کو اختتام کی جانب لیجاتے ہوئے انہوں نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کیڈرز کو یہ کہہ کر مخاطب کیا کہ بی ایس او کے نظریے کو پورے بلوچستان میں پھیلانے کی زمہ داری آپ لوگوں کے کندھوں پر استوار ہے اور اپنے پرجوش و مست توکلی جذبوں کے ساتھ بی ایس او کے نظریات کو آگے بڑھائیں۔

اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دن میں ایک دفعہ ضرور اپنے قومی جہد کاروں کو یاد کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کریں تاکہ آپ کو اس عظیم الشان انقلابی جہد میں کبھی مایوسی کا سامنا نا کرنا پڑے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.