کتاب دشمن یونیورسٹی انتظامیہ اور سہولتکار

تحریر: سجاد بلوچ

دہائیوں پر محیط فرسودہ قبائلی و جاگیرداری نفسیات نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ایک جمودی کیفیت طاری کر دی ہے بیرونی سامراج کی یلغار سے لے کر اندرونی قبائلی میر و معتبرین نے بلوچستان کے تمام تر علاقوں میں ایک طرح کی بے حسی کا عالم پیدا کر دیا ہے، شعوری و نظریاتی تنظیم کی عدم موجودگی کے باعث خودساختہ قبائلی رہنماؤں نے بلوچ نوجوان نسل کو سیاست و سیاسی سرگرمیوں سے بیگانہ بنا کر رکھ دیا ہے، نوجوان نسل کتاب و قلم کی جگہ دوٹکے کے میر و سردار کے پیچھے بندوق ہاتھ میں لیے پھرتے رہتے ہیں، فرسودہ قبائلی نفسیات نے نوجوانوں کے سوچنے سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیا ہے۔

یہ جبر کی داستانیں سالوں سے بلوچستان میں چلتے آرہے ہیں۔ اکثر ریاستی مشینری کی جانب سے مخلص اور تواناں تنظیموں کو کریک ڈاؤن کا نشانہ بنایا گیا ہے، ریاست کی جانب سے بلوچستان کے طلباء و طالبات کو سیاست و سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کی ہزاروں کوششیں کی گئی ہیں۔ طلباء و طالبات کے ہاتھوں میں کتاب و قلم کی جگہ بندوقیں دی گئی ہے، ہر علاقے میں ڈیتھ سکواڈز کا جال بچھا دیا گیا، پندرہ ہزار روپے اور ایک عدد موٹرسائیکل دے کر غنڈوں کے ذریعے دہشت پھیلائی گئی۔ جس کی وجہ سے بلوچ سماج کے نوجوان نسل علمی و ادبی بنیادوں پر پسماندگی کا شکار ہیں، مگر کہتے ہیں کہ طاقت کے نشے میں مست حاکم اپنی ظلم کی کارستانیوں کو جتنا تیز تر کرتا جائے گا عوامی سطح پر بغاوت اتنی ہی تیزی سے بڑھتی جائے گی۔

بلوچ سماج میں بیرونی سامراجی طاقتوں و اندرونی بالائی پرتوں کے ظلم و جبر کے خلاف ساٹھ کی دہاٸی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے ایک متحرک طلباء تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جو سائنسی نظریات پر کار بند ہے، یہ تنظیم اپنی اساسی دور سے لے کر آج تک ان تمام تر جمودی طاقتوں کے خلاف بر سرِ پیکار رہا ہے اور آج بھی علم دشمن ریاستی مشینری سمیت بلوچ سماج کے ان تمام تر کٹھ پتلی سردار میر نوابوں کے خلاف (جنہوں نے بلوچ سماج کو جامد کر کے رکھ دیا ہے) مسلسل جدو جہد کر رہا ہے۔

کتابیں اور قلم اس ادارے کے طلباء و طالبات کی میراث رہے ہیں، اس ادارے کے نوجوانوں نے بلوچستان کے تمام تر علاقوں میں علم و ادب کی خدمات سر انجام دیئے ہیں، کتاب کلچر کو فروغ دینے کےلیے یہ نوجوان ہر وہ عمل جو علم و کتاب دشمن قوتوں سے منسلک ہیں اس کے خلاف ایک مضبوط و پائیدار دیوار بن کر ابھرے ہیں۔

اسی فکر و فلسفے کے رجحان کو فروغ دینے کےلیے بی ایس او کے ساتھیوں نے 3 اگست 2022 کو ایک پر امن طریقے سے جامعہ بلوچستان کے اندر بامسار لٹریچرز کے نام سے ایک بک اسٹال لگانے کی کوشش کی، جسے یونیورسٹی انتظامیہ اور چند غنڈہ گرد عناصر کی جانب سے بی ایس او کے ساتھیوں کو جامعہ بلوچستان کے اندر اسٹال لگانے سے روک دیا، مگر چونکہ کتاب و قلم اس ادارے کے نوجوانوں کی میراث ہے اور وہ ہر محاذ پر اپنے اس روایت کی پاسبانی کرتے رہیں گے، تو اسی طرح بی ایس او کے نوجوانوں نے انتظامیہ کی سفاکیت و کتاب دشمن عمل کے خلاف سریاب روڈ کو بلاک کر کے اپنا احتجاجی مظاہرہ رکارڑ کروایا، اور اسی احتجاجی مظاہرے کے دوران ہی بی ایس او کے طالب علموں نے کتابیں روڑ پر سجا کر اسٹال جاری رکھا۔

بھلا بامسار کو کوئی روک سکتا ہے؟
سورج کی کرنوں کو روشنی پھیلانے سے روکنا اتنا آسان کام نہیں۔

اسی طرح یہ احتجاجی مظاہرہ شدت کے ساتھ جاری رہا پر اچانک سے غنڈا گرد پولیس نے طلباء و طالبات کے اس پر امن احتجاجی مظاہرے پر دھاوا بول دیا، غنڈا گرد پولیس کی بے رحمانہ سلوک کے خلاف طلباء و طالبات ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوئے آخر کار غنڈہ گرد پولیس کو بی ایس او کے دلیر و جانباز ساتھیوں نے پسپا کر دیا اور ایک بار پھر طلباء احتجاج پر بیٹھ گئے۔

مگر اس تمام تر واقعے میں سب سے بڑی حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ کچھ غنڈہ گرد، شاہ پرست عناصر جو خود کو حقیقی قومی ہیرو سمجھ بیٹھے ہوئے ہیں، جو دہائیوں سے بی ایس او کے نام پر ایک کلب چلا رہے ہیں جن کی سیاست سرکار کی گود میں پلنے والے پارٹی (بی این پی مینگل) کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے اور وہ بجائے انتظامیہ کی بے رحمانہ عزائم کو مورد الزام ٹھہراتے، الٹا مظلوم و محکوم طلباء پر توپیں برسا رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ بی ایس او کے ساتھیوں نے جان بوجھ کر سڑک پر کتابیں سجا کر احتجاج ریکارڈ کروایا ہے تاکہ عوام کا دھیان گورنر ہاؤس کے سامنے مسنگ پرسنز کے متعلق سیمینار سے ہٹ جائے۔

مگر ان جماعتوں کے پاکٹس کو بتاتا چلوں کہ بک اسٹال لگانے کے فوراً بعد بی ایس او کے مرکزی رہنما اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مسنگ پرسنز کے سیمنار میں چلے گئے تھے۔

رہی بات احتجاجی مظاہرے کی تو یہ بھی انہی غنڈہ گرد، پاکٹ آرگنائزیشنز کے ایماء پر انتظامیہ نے طلباء و طالبات کو جامعہ کے اندر اسٹال لگانے کی اجازت نہیں دی پر مجبوراً بی ایس او کے ساتھیوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔

بی این پی مینگل کی غنڈا گرد طلباء ونگ اور یونیورسٹی انتظامیہ بی ایس او کی بنیادی مشن(علم و زانت) کو ناکام بنانے کےلئے اپنا تمام تر زور آزما رہے ہیں مگر سرکار کے آشرباد پر پلنے والے یہ عناصر نہیں جانتے کہ بی ایس او ان تمام تر جمودی قوتوں کو شکست فاش دینے کی تاریخ رکھتی ہے، بی ایس او ایک بہتی ہوئی ندی کی مانند ہے اور ندی کے راستے کو دوسری طرف موڑ دینا یا اس کے راستے کو روکنے کی کوشش کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.