بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے ”عالمی و علاقاٸی تناظر“ کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل منعقد کیا گیا۔

رپورٹ: پریس سیکریٹری بی ایس او اوتھل زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اوتھل زون کی جانب سے 22/03/2023 بروز بدھ کو ”عالمی و علاقاٸی تناظر“ کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل منعقد کیا گیا، جس پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کمیٹی کے رکن سجاد بلوچ نے لیڈ آف دی، سرکل کی صدارت زونل صدر کامریڈ سید بلوچ نے کی۔

سرکل کا آغاز بی ایس او کے انقلابی روایتی انداز سے کیا گیا جس میں ساتھیوں نے دنیا بھر کے انقلابی شہداء کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی اختیار کیا گیا اور پھر باقاعدہ طور پر سرکل کا آغاز کیا ۔

عالمی و ملکی تناظر پر بات رکھتے ہوئے سجاد بلوچ نے کہا کہ 1991 کے بعد سویت یونین (کمیونسٹ بلاک) کے انہدام سے سامراجی طاقتوں بلخصوص امریکہ، برطانیہ اور باقی دیگر نیٹو اراکین نے دنیا بھر میں یہ ابہام پھیلانا شروع کر دیا کہ اب کمیونزم ناکام ہوچکا ہے لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام ہی دنیا کی آخری تاریخ ہے یہی نظام مشرق اور مغرب کے درمیان تاریخی تفریق جنگیں تباہ کاریوں کو ختم کرسکتا ہے اور دنیا بھر میں امن و امان اور خوشحالی لانے میں کامیابی حاصل کرے گا مگر جوں ہی سرمایہ داریت کا یہ ریلہ امریکہ اور برطانوی سامراج کی سربراہی میں آگے کی جانب بڑھتا گیا تو پہلا زور دار جھٹکا اسے تب محسوس ہوا جب 2008 میں دنیا معاشی بحران کی زد میں دھنس گیا چاروں اطراف سرمایہ دار ممالک دنیا کو اس معاشی بحران سے نکالنے میں ناکام ہوگئے حتیٰ کہ سرمایہ داریت کے بھیڑیے کا کپتان امریکہ بھی اس عالمی معاشی بحران سے نہیں بچ سکا وہ بھی اس تبادہی کے دلدل میں مکمل طور پر دھنس گیا۔

مزید سرکل کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی طرح جب 2014 میں روس نے پہلی بار یوکرینی خطے پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی تو ایک بار پھر سے مشرق اور مغرب آمنے سامنے ہوگئے ان کے درمیان جنگیں تباہکاریوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا روس اور یوکرین حالیہ تنازع نے ایک بار پھر دنیا کو مختلف بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے اس طاقت کے تقسیم نے محکوم قوموں کے لیے بے شمار امکانات پیدا کر دیئے ہیں کہ وہ بآسانی ان سامراجی طاقتوں سے اپنے آزادی حاصل کرسکیں مگر اس خاص مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر کے محکوم متحد ہو جائیں اور اس تمام تر سماجی ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑیں اور اس کے متبادل کوئی منصوبہ بند معاشی ڈھانچہ لا کھڑا کریں۔

مزید انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر بھی دہائیوں سے جاری سامراجی و نوآبادیاتی یلغار و قبضے نے جہاں ایک طرف سماج کے ہر کونے میں تاریخ کے انتہائی سنگین جبر رقم کیے ہیں وہی حق پر صدا آواز بلند کرنے والے بلوچ فرزندوں نے ہر عہد میں سامراجی و نوآبادیاتی یلغار کے خلاف حق کا جھنڈا بلند کر رکھا ہے۔ بلوچ خطے پر سامراجی طاقتوں کی ظلم و جبر کی داستانیں ابھی کے نہیں بلکہ 1948 سے یہ سلسلہ جاری ہے مگر اس ظلم و جبر کے خلاف ہر اٹھنے والی آواز کو دری آمر نے مقامی سردار و جاگیرداروں کی اشتراک سے دبا کر رکھ دیا ہے حتیٰ کہ بلوچ فرزندوں کی آوازوں کو دبانے کے لیے انہیں جبراً لاپتہ اور پھانسی دے کر قتل کر دیا گیا ہے مگر کہا جاتا ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے جب بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے اس ظلمت کو ختم کرنے اور قومی حق حاکمیت کے اصول کو تایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بلوچ قوم کے تمام بکھرے ہوئے پرتوں کو یکجاء و متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اس خاص مقصد کے حصول کیلئے آج بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسے مادر علمی و سیاسی درسگاہ کیلیے ضروری ہے کہ وہ اپنی کیڈر سازی کے عمل کو تیزی سے ترقی و ترویج دے کر عوامی سطح پر طاری اس سیاسی جمود کی کیفیت کو ختم کر کے لیے ایک نظریاتی و سیاسی پلیٹ فارم (پارٹی) تشکیل دیں تاکہ اس پارٹی کے چھاتر چھایہ قوم کے تمام تر بکھرے ہوئے زنجیروں کو باآسانی سے ایک ساتھ جوڑا جاسکے اور اس خاص مقصد کو تایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کیا جاسکے۔

آخر میں سرکل میں موجود ساتھیوں نے اس حوالے سے سوالات کیے اور سجاد بلوچ نے سوالات کے تسلی بخش جواب دیتے ہوئے سرکل کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.