بی ایس او شال زون یو او بی یونٹ کا بعنوان ”بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں حق خودارادیت کا قضیہ اور عالمی طاقتوں کا مفاد پرستانہ کردار“ اسٹڈی سرکل کا انعقاد، یونٹ سیکریٹری کامریڈ ظہور بلوچ نے لیڈ آف دی۔

رپورٹ : پریس سیکریٹری یو او بی یونٹ شال زون

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شال زون جامعہ بلوچستان یونٹ کا اسٹڈی سرکل مرگزی آرگن ”بامسار“ میں اشاعت شدہ سنگت حبیب کریم کے تحریر”بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں حق خودارادیت کا قضیہ اور عالمی طاقتوں کا مفاد پرستانہ کردار ” پر منعقد ہوا جس میں لیڈ آف جامعہ بلوچستان یونٹ کے یونٹ سیکریٹری ظہور بلوچ نے دی جب کہ کاروائی ڈپٹی یونٹ سیکریٹری جنید بلوچ نے چلائی۔

سنگت نے بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں حق خودارادیت کا قضیہ اور عالمی طاقتوں کا مفاد پرستانہ کردار کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی طاقتیں حق خود ارادیت کو مختلف پلیٹ فارمز پر تسلیم تو کرتی ہیں مگر تمام طاقتور ممالک کی عالمی سطح پر مفادات مختلف محکوم اقوام کے حق خودارادیت کے سامنے رکاوٹ بنی رہے ہیں۔ مختلف محکوم اقوام نے اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوۓ مزاحمت کے ذریعے غلامی سے نجات پائی ہے۔

مزید سنگت نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حق خودارادیت کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی قوم جو آج کے عہد میں قوم کی تعریف پر پورا اترتی ہو، جس کی تعمیر و تشکیل میں تاریخ نے ہاتھ بٹایا ہو، جس کا مشترکہ ماضی، مشترکہ وطن، مشترکہ اقدار و معیارات، نفسیات و مشترکہ ثقافت و زبانیں اور مشترکہ وطن اور مشترکہ مقاصد ہوں وہ قوم حق خود ارادیت کے تفہیم کے تحت الگ قومی شناخت و پہچان کے ساتھ اپنے اوپر حکومت کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

مگر عالمی سامراجی طاقتیں محکوم اقوام کو آج کے عہد میں بھی ان کے بنیادی قومی حق سے محروم رکھے ہوٸے ہیں اور مسلسل انہیں اپنے ہی وطن پر اجتماعی قومی نسل کشی کا سامنا ہے۔ محکوم اقوام و ان کی سرزمین پر قبضہ جاری رکھنا اور اس محکوم وطن کے عوام کے ساحل وساٸل و تہذیب لوٹنا عالمی طاقتوں کا مرعوب مشغلہ بھی ہے اور ضرورت بھی۔

بحث کو جاری رکھتے ہوئے کہا گیا کہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ان محکوم اقوام کے ساتھ ایک اور نا انصافی یہ بھی ہے کہ اس وقت قومی محکومی کو یورپین عینک سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ اقوام جن کے آپسی تضادات ہیں اور وہ یورپین ہیں تو وہ مغلوب اقوام کو محکوم تسلیم کرتے ہیں جن پر قبضہ کسی یورپین طاقت نے کی ہو۔ مگر کسی افریقی و ایشیاٸی یا پھر غیر یورپین طاقت کے دوسرے غیر یورپین قوم و وطن پر قبضے کو یورپین عینک کے تناظر میں قبضہ سمجھا ہی نہیں جاتا اور اس قوم کی قومیت سے انکار کیا جاتا ہے۔

حق خودارادیت کی اصطلاح کے کٸی تشریحات ہو سکتے ہیں۔ یورپ میں اس کے لیے قومی خودارادیت کا مفہوم لیا جاتا ہے جب کہ شہری دنیا میں اس سے مطلب نوآبادیاتی خودارادیت لی جاتی ہے اور ریاستی معنوں میں یہ حق علحیدگی یا آزادی سمجھا جاتا ہے
حق خودارادیت کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تاریخ میں قوموں کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑا ہے انیسویں صدی میں خودارادیت کے تصورات مارکس اور اینگلز کی تحاریر میں نمایاں تھے۔ جن کو بعد ازاں بیسوی صدی میں لینن نے آگے بڑھایا ۔

سنگت نے مزید کہا کہ 1918 میں امریکی صدر ووڈرو ولسن نے اپنے مشہور چودہ نکات میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحم اقوام کے لئے حق خودارادیت کا ایجنڈا پیش کیا۔ اسی طرح بالشویک انقلاب کے بعد سوویت یونین نے بھی جبر کے شکار اقوام کی حق خودارادیت کی حمایت کی۔ لیکن سرمایہ دارانہ ممالک کی طرف سے اقوام کی حق خودارادیت کی حمایت ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ محکوم کی حق خودارادیت ظالم کے سرمایہ کی موت ہے سوویت آئین کے مطابق 12 سوویت ریپبلک ریاستوں کو خودارادیت کا حق دیا گیا مگر ان اقوام کو خودارادیت سوویت یونین کے انہدام کے بعد ہی ملی۔

نوآبادیاتی دور میں یورپی سامراجی طاقتوں نے مختلف خطوں میں بسنے والی اقوام کو تقسیم کرتے ہوئے اپنے قبضے کو دوام بخشا۔ ایسی پالیسی کی صورت میں افریقہ اور برصغیر کی طرح بلوچستان میں 1871 میں گولڈسمتھ لائن اور 1893میں ڈیورنڈ لائن جیسی نوآبادیاتی سرحدات بنا کر بلوچستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ۔یہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی آج بھی زور وشور سے جارہی ہے۔

ایران کے زیر اثر مغربی بلوچستان کو ایران کی اسلامی کونسل نے مزید چار ٹکڑوں (سیستان، زاہدان، خواش اور بمپور) میں تقسیم کر رکھا ہے وہیں مشرقی بلوچستان کو شمال و جنوب میں تقسیم کرنے کا خواب حقیقت میں ڈھلنے کا منتظر ہے بلوچستان کی تقسیم جبری طور پر بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے برخلاف ہوا ہے۔ بات جبری الحاق تک بھی نہیں رکی ان سفاک نوآبادکاروں نے بلوچستان میں خون کی ہولی اور وساہل کی لوٹ مار کے نتیجے میں ایک سیاسی ،سماجی ، معاشی اور وجودی بحران جہنم دیا ہے۔ ایک دیرپا اور لمبی جدوجہد باوجود آج دنیا میں موجود دوسرے محکوم اقوام کی طرح بلوچستان بھی اپنی قومی خودارادیت سے محروم ہے اور اس کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔

آج کے عہد میں قومی حق خود ارادیت مزید پیچیدہ اور اس کا حصول مزید مشکل ہو چکا ہے، آج کے عہد میں نیو لبرل پالیسیز کے تحت کسی بھی قوم کو احساس دلاٸے بغیر بھی غلامی و محکومی کی نحوست میں دھکیلا جا سکتا ہے اور اس کی قومی فیصلہ و قومی حکمرانی پر اثرا انداز ہو جا سکتا ہے۔ آج کسی بھی محکوم قوم کےلیے لازمی ہے کہ وہ ان نٸی نوآبادیاتی اور نیو لبرل پالیسیوں کو سمجھ کر مکمل ان سے نجات کی کاوش کرے اور قوم کو انقلابی بنیادوں پر منظم کرنے کی کوشش کرے تاکہ آنے والے کل میں قومی حاکمیت حقیقی معنوں میں حاصل کی جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.