بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کابینہ کا آن لائن اجلاس زیر صدارت مرکزی چیرمین ظریف رند منعقد ہوا, ملکی و بین الاقوامی تناظر سمیت تنظیمی امور کے ایجنڈے زیر بحث رہے اور آئیندہ آن لائن سرکل, ویبنار, لیکچر پروگرام اور آن لائن کانفرنسز منعقد کرنے کے ساتھ تنظیمی ڈھانچوں کو مزید مضبوط کرنے کے فیصلے لیئے گئے

رپورٹ: مرکزی سیکریٹری اطلاعات, بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کابینہ کا اجلاس 7 مئی کو آن لائن اپلیکیشن کے ذریعے ویڈیو کال پر زیر صدارت مرکزی چیرمین ظریف رند منعقد ہوا, جس میں بین الاقوامی ملکی و علاقائی تناظر سمیت تنظیمی امور پر سیر حاصل بحث ہوا جبکہ اہم تنظیمی فیصلہ جات بھی لیئے گئے

تناظر پر بحث کرتے ہوئے کہا گیا کہ آج ہم تیز ترین بدلتی دنیا کے اندر جی رہے ہیں جس میں دن مہینوں کے حساب سے حالات بدل رہے ہیں اور نت نئے واقعات رونما ہو رہے ہیں. ان بدلتے حالات اور رونما ہونے والے واقعات کے پیچھے موجودہ نظام کا بحران کارفرما ہے جس سے بہر صورت استحکام کی گنجائشیں ختم ہو چکی ہیں. بین الاقوامی سطح پر بحران نے پورے عالم میں سیاسی بھونچال کھڑا کر دیا ہے اور ترقی یافتہ دنیا سے لیکر تیسری دنیا تک ہر طرف ملکی و سماجی ڈھانچے لڑکڑاہٹ کی کیفیت میں مبتلا ہیں. سامراجی ممالک توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ تحفظاتی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں کیونکہ انکی معاشی بحران سیاسی عدم استحکام کے جنم کا باعث بن چکی ہیں اور عالمی اسٹیبلشمنٹ پرانے روایتی طریقوں سے اپنی اجارہ قائم رکھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے.


موجودہ وقت میں کورونا کے وبا نے نظام کے لگے لپٹے پردوں کو بھی اتار دیا ہے اور دنیا پر اس نظام کی حقیقت کو آشکار کر دیا ہے جو لوٹ اور استحصال پر مبنی ہے, جبکہ عوامی فلاح اس سسٹم کے اندر غیراہم قرار پائی ہے. سرمایہ داری کے چیمپیئن ٹھیکیدار امریکہ بہادر کے اترتے لحاف سے عیاں ہوا ہے کہ امریکہ بھی اپنے شہریوں کیلئے صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہے اور وہاں بھی ماسک, کٹ, وینٹیلیٹر اور دیگر ضروری سازوسامان کی شدید قلت موجود ہے تو اس سے اندازہ لگانا بہت آسان ہوگیا ہے کہ امریکہ کی خیرات پر پلنے والے مملکت کے اندر صحت کے شعبے کی کیفیت کیا ہوگی


اسی تناظر میں پاکستان جیسے غیرمستحکم اور معاشی دیوالیہ پن کا شکار ملک کورونا وبا کے دنوں میں لاچار و بے بس نظر آتی ہے اور عوام کو کسی چمتکار کی آس پہ چھوڑا جا چکا ہے. عوام تو چھوڑیں عوام کے مسیحاؤں کو بنیادی سازوسامان تک میسر نہیں اور ڈاکٹروں کو بنیادی ضرورت کے مطالبہ کرنے پر دہشتگردوں کی طرح چترول کرنا مملکت خداداد کی فرائض انجام دہی کو ایکسپوز کرتا ہے


اس سے پہلے ہی جدید تکنیک پر تحقیق کرنے والے سکالرز کی تعلیمی بجٹ پر حکومت وقت کٹوتی لگا چکی ہے اور اب وہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ریسرچر کوئی دوا و علاج تلاش کریں. اس سے ملک چلانے والوں کی دوراندیشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ اب وہ اپنی ناکامیوں پر سیخ پا ہو کر ڈاکٹروں, ریسرچروں اور طلبہ پر ڈنڈے برسا کر اپنی اناؤں کی تسکین کر رہے ہیں


لاک ڈاؤن کے نام پر جو تعلیمی ادارے بند ہوئے ہیں اس سے طلباء کی تعلیم شدید متاثر ہوئی ہے اور ریاست کی اختیار کردہ پالیسی کے پیش نظر جو آن لائن کلاسس منعقد کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے وہ بہت بڑا بھونڈا مذاق سے کم نہیں ہے کیونکہ ایسی پالیسیاں اختیار کرنے والے ممالک وہ ہوتے ہیں جو اپنے ممالک کی طول و ارض میں انٹرنٹ بجلی اور موبائل نیٹورکس کی جال بچھائے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ یہاں پاکستان کے سب سے بڑے شہروں میں بھی بجلی اور انٹرنٹ کی معیاری سہولت میسر نہیں ہے تو بھلا ملک کے دیہی علاقوں میں بجلی انٹرنٹ اور موبائل نیٹورکس کا تصور کیسے ممکن ہو سکتا ہے
ایسی غیرسنجیدہ پالیسیوں سے ملک کے اندر طبقاتی تفریق کے ساتھ دیہی اور شہری تضادات شدت اختیار کرنے کی طرف جائیں گے. آج کا نوجوان نسل جدید تکنیک سے انکاری نہیں ہے اور نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ آن لائن کلاسس سے استفادہ حاصل کریں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ریاست سب سے پہلے وہ بنیادی لوازمات فراہم کرے اور انتظامات پورے کرے اس کے بعد دنیا کو کاپی کرنے کی شوشہ چھوڑا جائے


یوں بحران در بحران نے عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں اور تفریق و تضادات نے جینا دوبر کر دیا ہے. وبا کے دنوں میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے روزگار چھن گئے ہیں اور روزمرہ کمانے اور کھانے والے افراد غربت کے اتاگہرائیوں میں ڈوبے چلے جا رہے ہیں. درست ہیکہ کورونا امیر اور غریب کو بلاتمیز متاثر کرتی ہے مگر غریب میں وہ سکت موجود نہیں ہے کہ وہ علاج معالجہ کر سکے یا گھر بیٹھ سکے کیونکہ وہ شدید معاشی بدحالی کا شکار ہیں جبکہ ریاست کوئی بھی سہولت فراہم کرنے میں ناکام ہے. اس سے طبقاتی تفریق مزید گہرا ہو جائے گا اور ایک عرصے بعد جب نارملٹی آئیگی تو یقینی طور پر دنیا وہ نہیں رہے گی جو آج سے چند مہینے پہلے وبا سے پہلے تھی. لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ شعور میں بھی واضح تبدیلی آچکی ہوگی اور سماجی بنتر میں بھی معیاری تبدیلیاں یقینی ہیں


اس تناظر میں جو بنیادی تضاد سامنے آرہا ہے وہ قیادت کے فقدان کا ہے. ملکی و بین الاقوامی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے کہ قیادتیں شدید کنفیوژن اور بے بسی کی عالم میں نظر آتی ہیں. زیادہ تر تو گوشہ نشینی کو اپنی خیر مان رہی ہیں. عوام کو کوئی سنجیدہ دلاسہ دینے سے بھی قیادت عاری ہے. معجزے اور چمتکار کے منتظر قیادت عوام کے سامنے بری طرح ایکسپوز ہے اور عوام اس کیفیت میں بڑے اسباق سیکھ رہی ہے


ایسے میں قیادت کے بحران پر قابو پانے کا ہدف سب سے بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج کو درست نظریات کے ذریعے قابو کرکہ ہدف کا تعاقب کیا جا سکتا ہے. بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اسی لئے نظریات کو اولین ترجیح پر رکھتی ہے اور نظریاتی تربیت اور کیڈرسازی کو بنیادی ضرورت گردانتی ہے. اسی اثناء میں تنظیم کاری کے عمل کو بارہا وزٹ کرکہ درست تناظر کے پیش نظر نئی حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے جس کی تسلسل یہ اجلاس بھی ہے


مرکزی کابینہ کے اجلاس میں تنظیمی امور کے ایجنڈے پر تنظیم کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا. مشکل حالات کے اندر تنظیم مسلسل میدان عمل کے اندر رہی ہے. نئے تجربات اور اتار چڑھاؤ برابر تنظیمی بڑھوتری کا حصہ رہے ہیں. ہر نئے تجربہ سے تنظیم کی بنیادیں مضبوط تر ہوئی ہیں. نئے ڈیویلپمنٹ, نئی شمولیت تنظیم کیلئے حوصلہ افزا رہے اور تنظیمی مورال کو بلند کرنے اور سچے نظریات کی فتح ثابت ہوئے
آئیندہ تنظیم کاری سے متعلق اہم فیصلے لیتے ہوئے تنظیمی روابط بڑھانے اور ڈھانچوں کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی جبکہ طلبا کو درپیش مسائل کے پیش نظر آن لائن کلاسس کے بائیکاٹ اور بلوچستان بھر میں انٹرنٹ کی بحالی کیلئے مؤثر کیمپین کا فیصلہ لیا گیا. علاوہ ازیں آن لائن سرکل, ویبنار, لیکچر پروگرام, اور کانفرنسز منعقد کرنے کے فیصلے بھی لیئے گئے جبکہ تنظیم کے جونیئر وائس چیرمین کے موصول شدہ استعفی کو بھی قبول کرکہ جونئر وائس چیرمین کی پوزیشن کو خالی رکھنے کا فیصلہ لیا گیا جس پر حتمی توسیق مرکزی کمیٹی کرے گی
آئیندہ ہر اتوار کی شب 10 بجے سے 12 بجے تک آن لائن سرکل زوم اپلیکیشن پر منعقد ہوگا جس میں تنظیم کے تمام ممبران شریک ہونگے جبکہ مرکزی کابینہ کا اجلاس ہر 15 دن بعد منعقد کیا جائے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published.