محکوم اقوام کے طلبہ کی آپسی رسہ کشی افسوسناک ہے، طلبا کو انقلابی نظریات اور قومی مقاصد کے گرد اپنے کردار کا تعین کرنا ہوگا : بی ایس او

مرکزی ترجمان: بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ قاٸد اعظم یونیورسٹی کے اندر پشتون کونسل کی جانب سے بلوچ طلبہ پر گروہی شکل میں حملہ کرنا قابل مذمت عمل ہے۔ ایسے جارحانہ اور بزدلانہ اعمال فقط فاشسٹ قیادتوں کی طرف سے ہی ممکن ہو پاتے ہیں جو کہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچ و پشتون اقوام تاریخ میں ہمسایہ کے طور پر رہی ہیں اور ایک دوسرے کے معاون و مددگار اور خیر خواہ رہی ہیں۔ مگر جب بھی دونوں اقوام میں کشت و خون ہوا اس سے قابض کو ہی فائدہ پہنچا اور کچھ مقتدرہ قوتوں کے علاوہ دونوں اقوام کو پیچھے لے جانے کا باعث بنا۔ پشتون کونسل کی قیادت کی جانب سے محکوم بلوچ طلبہ پر جارحانہ حملہ بلوچ نسل کشی میں حاکم کا مکمل ساتھ دینے اور اس کے ساتھ تعاون کرنے کے مترادف ہے۔ ماضی میں پشتون قوم پرست قیادت نے بلوچ قوم پر سامراجی جارحیت پر خاموشی اختیار کیے رکھی اور زاتی و گروہی مفادات کیلئے جارحیت کو توانائی بخشی، جس سے پشتون قوم کو بھی اتنا ہی نقصان پہنچا۔ ہمیں اپنی تاریخی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔

بلوچ طلبہ پر حالیہ جارحانہ حملے پر پشتون مزاحمتی قیادت بالخصوص منظور پشتین کا رد عمل حوصلہ افزا ہے مگر ایسے گھناٶنے فسطاٸی اعمال کی روک تھام کےلیے بلوچ و پشتون قیادت کو مل بیٹھ کر ایک منطقی نقطے تک پہنچنا ہوگا اور حالیہ واقعہ میں ملوث کرداروں کے خلاف قومی پیمانے پر باقاعدہ کاررواٸی کرنی ہوگی۔ یہ عمل دو برادر محکوم اقوام کو باقاعدہ برادر کشی اور کشت و خون کی جانب دھکیلنے کی ایک منظم سازش کے مترادف ہے۔

اس کے ساتھ ہی کونسلز کو اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ وہ کوئی انقلابی کردار نبھانے کی بجائے مسلسل رجعتی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ بدنام زمانہ جمعیت کی غنڈہ گردی اور پرتشدد ثقافت کے خلاف ابھری کونسلز اگر ویسا ہی کرنا شروع کردے گی تو اس مجرمانہ کردار کی کوئی صفائی ممکن نہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن سمجھتی ہے کہ محکوم اقوام کے نوجوان انقلابی نظریات اور قومی مقاصد کے گرد جمع ہو کر جدوجہد کریں۔ آج جس تباہی کا بلوچ و پشتون کو سامنا ہے اس میں نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ ہم مذید واضح کرتے ہیں کہ دو محکوم و غلام اقوام کی آپسی رسہ کشی کی مخالفت کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کریں گے کہ یہ لڑائی آگے نہ پھیلے، مگر ٹھیک اسی طرح بلوچ طلبہ کے دفاع کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.