بلوچ قوم کی بکھری ہوئی قوتوں کو یکجا کر کے ایک قومی و انقلابی کردار میں ڈھالنا ہوگا۔ چیئرمین چنگیز بلوچ

رپورٹ: سیکریٹری اطلاعات بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن کے سینٹرل کمیٹی کا دو روزہ اجلاس 25، 26 فروری کو زیر صدارت مرکزی چیٸرمین چنگیز بلوچ منعقد، نیشنل اسکول کے انعقاد اور بامسار کی اشاعت سمیت اہم فیصلہ جات لیے گٸے۔

بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کا دو روزہ اجلاس شال میں زیر صدارت چنگیز بلوچ منعقد ہوا جب کہ اجلاس کی کاررواٸی مرکزی سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے چلاٸی۔ دو روزہ مرکزی اجلاس میں تناظر، سیکریٹری رپورٹ، تنظیمی امور، تنقید براٸے تعمیر اور آٸندہ کا لاٸحہ عمل زیر بحث رہے۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز بی ایس او کے مرکزی چیٸرمین کے افتتاحی کلمات سے ہوا۔ جس میں انہوں نے بلوچستان میں حالیہ تحریکوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ وقت ہے کے بلوچ قوم کی بکھری ہوئی قوتوں کو یکجا کر کے ایک قومی و انقلابی کردار میں ڈھالا جاٸے، عوام کے مختلف بکھرے ہوئے احتجاجات کو ایک قومی سیاسی تحریک کی شکل دے کر آگے بڑھانا ہوگا تاکہ ہم اپنے قومی مقاصد تک پہنچ سکیں۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ قوم دوست جماعتیں اپنے زاتی و گروہی مفادات اور کم نظری سے نکل کر قومی سطح پر سوچنا شروع کریں۔

مرکزی چیٸرمین نے کہا کہ بی ایس او کے انقلابی ساتھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ بی ایس او کی نظریاتی بحالی اور خود مختاری کا جو بیڑہ اٹھایا گیا تھا، ہم اپنی جہد میں ثابت قدمی سے عمل پیرا ہیں۔ آج بی ایس او نہ صرف آزاد اور خود مختار ہے بلکہ اپنے اصل انقلابی نظریات کے ساتھ بحال ہو کر منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ تنظیمی اداروں کی بحالی، معروض کا درست تجزیہ اور تناظر کے گرد درست پوزیشن پر کھڑے ہو کر فیصلہ جات لینا اصل چیلنج ہے جس میں اب تک بی ایس او کامیاب رہی ہے۔

واجہ چنگیز بلوچ نے کہا کہ آج اس درست پوزیشن اور فیصلہ جات کی بنیاد پر نہ صرف بی ایس او کے کیڈر کا اعتماد ادارے پر بحال ہوا ہے بلکہ تنظیم اور عوام کے جدلیاتی رشتے میں سیاسی حلقوں بالخصوص عوام کا اعتماد بی ایس او کی آزادانہ اور خود مختارانہ حیثیت پر بحال ہوا ہے جو کہ ہمارے انقلابی عمل کو مزید طاقت بخشے گا۔

تناظر پر بات کرتے ہوٸے مرکزی ساتھیوں نے کہا کہ عالمی سامراجوں کی صف بندیاں مکمل ہو کر باقاعدہ جنگی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ ایک طرف یوکرین جیسی سامراجی عزاٸم کے تکمیل کی جنگیں ہیں جن پر اربوں کھربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں جب کہ دوسری جانب بھوکی ننگی انسانیت ہے جن کے پاس ان سامراجی قوتوں کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں۔ سابق برطانوی وزیر اعظم یوکرینی حکومت کو جنگی جہاز دینے کی فرماٸشیں کر رہا ہے مگر دوسری جانب گزشتہ دو سالوں سے سراپا احتجاج برطانوی ہیلتھ کیٸر ورکرز کو بنیادی سہولیات دینے سے بھی قاصر ہے۔

ساتھیوں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد، لبرل فلاسفی بھی آج بے پردہ ہو کر زمین بوس ہو چکی ہے۔ ایک طرف تاٸیوان کے گرد ان سامراجی عزاٸم کا ابھر کر جنگی شکل اختیار کرنے کو ہیں تو دوسری جانب درجنوں محکوم اقوام و طبقات کالونیٸل جبر و تشدد کا شکار ہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں، جنگیں مسلط کرکے ان اقوام کی نسل کشی کی جا رہی ہے مگر نام نہاد انسانیت کے پرچارک لبرل فلسفے کے پیرو کاروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

مرکزی ساتھیوں نے کہا کہ پاکستان بھی انہی سامراجی طاقتوں کی ایک کالونی ہے جس میں اب تک انہی آقاٶں کی منشا سے سب کچھ طے ہوتا آ رہا ہے۔ جہاں عالمی سرمایہ دارانہ نظام بُحرانات کی لپیٹ میں ہے تو وہیں پر ایسی نیوکالونیٸل ریاستیں بھی اس بحران کی زَد میں آ کر زمین بوس ہونے کو ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسی ریاست جو ہمیشہ سے سامراجی پےرول پر کام کرتی رہی ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک میں جنگ سے فائدہ اٹھایا ہے اس کیلئے معاشی استحکام ناممکن ہوچکا ہے۔ پاکستان میں ہر پل گہرا ہوتا ہوا معاشی و سیاسی بحران کسی بھی وقت مکمل خانہ جنگی کی صورتحال اختیار کرسکتا ہے۔

مرکزی ساتھیوں نے کہا تمام تر بحرانات معاشی مشکلات کے باوجود بلوچ وطن پر کالونیٸل حکام کا برپا کردہ ظلم و جبر کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آٸے روز بلوچ وطن لہولہاں کیا جا رہا ہے، جبری گمشدگیاں شدت اختیار کر رہی ہیں جس سے اب بلوچ خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔

اس وقت تمام تر ریاستی ادارے بشمول انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا و مقننہ بلوچ نسل کشی کو بڑھاوا دینے میں مشغول ہیں۔ ایسے میں ریاستی پُشت پناہی کے سبب قباٸلی و سرداری نظام بھی اس سفاکیت کو مسلسل بڑھاوا دے کر بلوچ کے سینے کو چیرنے و اور لہو لہاں کرنے میں پیش پیش ہے۔ جہاں ہم بیرونی حاکم کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں تو ساتھ ساتھ ہمیں ان مقامی آلہ کاروں کے ساتھ بھی ایک لڑاٸی لڑنی ہوگی نہیں تو قباٸلی و سرداری نظام کا ناسور ہماری جڑیں ہمیشہ کھوکھلا ہی رکھے گا اور ہم ان کے جبر کا شکار مسلسل ہوتے رہیں گے اور وہ وطن فروشی کی نئی داستان رقم کرتے رہیں گے۔

خواتین کی جبری گمشدگی اور قتل عام کے واقعات کا پیش آنا اور بارکھان میں پیش آنے والا واقعہ نہ اس نظام کی پہلی واردات ہے نہ ہی آخری واردات ہوگی، جب تک یہ نظام قاٸم ہے یہ اس طرح کے شرمناک جبری اعمال مسلسل کرتا رہے گا، بلوچ سماج کو کچلتا رہے گا جس میں عورت اس کا پہلا اور آسان ترین شکار ہے۔

قبائلی نظام کی مسخ شدہ شکل ہمیشہ منزل کے حصول میں رکاوٹ ڈالتا رہے گا۔ کیونکہ یہ ہمارا اپنا قباٸلی و سرداری نظام بھی پارلیمنٹ، عدلیہ، عسکری قوتوں، انتظامیہ اور میڈیا کی طرح باقاعدہ طورپر ریاستی اسٹرکچر کو کمک فراہم کرتا ہے۔ اس لیے بلوچ کو اپنے اس بالاٸی طبقے کی مظالم کے خلاف ایک بار پھر منظم جدوجہد کرنی ہوگی تب جا کر ہم بیرونی حاکم کے ساتھ ساتھ اندرونی حاکم سے بھی چھٹکارا حاصل کر پاٸیں گے۔ تبھی ایک ایک آزاد اور منصفانہ سماج کا قیام ممکن ہو پاٸے گا، کیونکہ ایک کامیاب انقلاب ہی اصل انصاف ہے۔

تنظیمی امور پر بات کرتے ہوٸے ساتھیوں نے کہا کہ بی ایس او کا ان مظالم کے باوجود مسلسل عوام میں موجود رہنا اور ان کی رہنماٸی کرتے رہنا ایک امید کی کرن ہے۔ تحریکیں مسلسل اٹھتی رہیں گی مگر ان تمام تر تحریکوں کو جوڑ کر قومی سطح پر مزاحمتی تحریک تشکیل دینا ہی اصل امتحان ہے اور کامیابی کی اولین شرط بھی۔ ایسے میں قوم دوست کرداروں کو چاہیے کہ وہ ہمہ وقت بلوچ عوام کی ہر تحریک میں موجود رہ کر انہیں درست بیانیے اور حکمت عملی سے آشناس کریں اور مسلسل ان کی نظریاتی و عملی صلاحیتوں کو فروغ دے کر قومی سطح تک لائے۔ کسی بھی تنظیم کی پختگی اور طاقت کا اندازہ عام حالات میں نہیں لگایا جا سکتا وہ صرف تحریکی ابھار کے اندر ہی منوایا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھی ہی مختلف ایجنڈاز پر مباحث کے ساتھ تنظیمی امور اور آگے کے لائحہ عمل پر بات ہوئی۔ جس میں مرکزی وائس چیئرمین جیٸند بلوچ کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا اور مرکزی ممبر مقصود بلوچ کو معطل کیا گیا اور دونوں پر جرمانے عائد کیے گئے۔ بعد ازاں نیشنل سکول کو مارچ میں منعقد کرنے کا فیصلہ لیا گیا اور بامسار کے نئے شمارے کی اشاعت کا بھی فیصلہ لیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.